Maktaba Wahhabi

267 - 342
صحابہ کرام نے سنا تو حیران رہ گئے، بڑے متعجب ہوئے۔ بھلا کسی عام شخص سے بھی کوئی اس قسم کا سوال بھی کرسکتا ہے۔اور یہ اللہ کے آخری رسول امام الانبیاء والمرسلین سے اس قسم کا سوال کررہا ہے۔ وہ بیک زبان اسے کہہ رہے ہیں:(مَہْ مَہْ) ’’ارے رک جاؤ، ارے رک جاؤ۔‘‘ یہ کس قسم کا سوال کر رہے ہو؟ کس شخصیت سے یہ سوال کر رہے ہو جو کائنات کے باسیوں کو پاک صاف کرنے، ان کا تزکیۂ نفس کرنے کے لیے تشریف لائی ہے۔ اس قبیح حرکت کو تو اسلام نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ اگر کوئی شادی شدہ ہے تو اس کی سزا اتنی شدید ہے کہ اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ قارئین کرام! آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کی تو جہ اس طرف ضرور دلاؤں گا کہ کیا آج کے حکمرانوں میں سے کسی سے یا کسی وزیر، مشیر سے کوئی شخص اس قسم کا سوال کر سکتا ہے؟ پہلی بات تو یہ کہ کسی کی جرأت ہی کہاں؟ اور اگر کوئی ایسا سوال کر بیٹھے تو ممکن ہے اسے جیل بھجوا دیا جائے، اسے مارا پیٹا جائے۔ مگر یہاں رحمۃ للعالمین ہیں۔ اپنی امت کے سب سے بڑے خیرخواہ سے ایسا بیہودہ سوال کیا جا رہا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت بھری نگاہوں سے اس نوجوان کو دیکھا، صحابہ کرام سے فرمایا:(دَعُوہُ) ’’اسے چھوڑ دو۔‘‘ سوال کرنے دو۔ اور پھر اس نوجوان سے فرمایا:( اُدْنُہْ) ’’قریب ہو جاؤ۔‘‘
Flag Counter