Maktaba Wahhabi

310 - 342
یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کبھی کسی قوم پر بد دعا کرنے کے لیے کہا گیا تو آپ کا جواب اس قوم کے لیے دعا ہی کی صورت میں ہوتا تھا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا تعلق یمن کے مشہور قبیلہ دوس سے تھا۔ قبیلہ دوس کے ایک بڑے سردار طفیل بن عمرو دوسی اپنے ساتھیوں سمیت صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ طیبہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ طفیل بن عمرو نے مکہ مکرمہ میں نبوت کے گیارہویں سال اسلام قبول کیا تھا مگر ان کی قوم نے اسلام لانے میں تاخیر کی جس کا انھیں شدید رنج تھا ۔ وہ اپنی قوم سے سخت ناراض تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دن وہ مسجد نبوی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہیں، اپنی قوم کے اسلام نہ لانے کا شکوہ کررہے ہیں۔ عرض کررہے ہیں یا رسول اللہ! (إِنَّ دَوْساً عَصَتْ وَأَبَتْ) ’’دوس قبیلہ کے لوگ نافرمان اور اسلام کے منکر ہیں ‘‘ (انھوں نے اسلام لانے سے انکار کیا ہے) (فَادْعُ اللّٰہَ عَلَیْہَا) ’’آپ ان کے خلاف بد دعا کیجیے۔ ‘‘ قارئین کرام! یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس واقعے کے راوی پوری باریک بینی سے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ جب بد دعا کے لیے درخواست کی گئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند فرمایا۔ لوگوں کو محسوس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوس کے لیے بد دعا کرنے لگے ہیں، ان کی زبانوں سے بے اختیار نکلا:(ہَلَکَتْ دَوْسٌ) ’’دوس قبیلہ ہلاک و برباد ہوگیا‘‘۔ اس کا بیڑا غرق ہوگیا ، اللہ کے رسول کی بد دعا انہیں تباہ کردے گی۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃللعالمین تھے، خلق عظیم کے مالک تھے۔ دوس قبیلہ کے سردار کی درخواست کے برعکس فرما رہے تھے:(اَللّٰہُمَّ اھْدِ دَوْساً وَائْتِ بِہِمْ) ’’اے اللہ دوس کو ہدایت عطا فرما اور انھیں (مسلمان کرکے ہمارے پاس بھیج دے)۔‘‘، ، صحیح البخاري، حدیث:2937، و صحیح مسلم، حدیث:2524۔ قارئین کرام! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دوس قبیلے کی حق میں دعا قبول ہوتی ہے۔ وہ مسلمان ہوجاتے ہیں اور مطیع و فرمانبردار بن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آجاتے ہیں۔
Flag Counter