Maktaba Wahhabi

312 - 342
اس حدیث کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اس غلطی کا مرتکب شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہے، عرض کررہا ہے:اللہ کے رسول! میں تو ہلاک و برباد ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(وَمَا ذَاکَ) ’’ساتھی! کیا ہوا؟ کیا مسئلہ بن گیا؟‘‘ عرض کیا:اللہ کے رسول! روزے کی حالت میں دن کے وقت اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلقات کا مرتکب ہوا ہوں۔ قارئین کرام! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کو دیکھیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈانٹا نہ طعنہ دیا، نہ اس کا تمسخر اڑایا، بلکہ مسئلے کا حل بتایا ، آپ نے فرمایا:ساتھی! (ہل تَجِدُ رَقَبَۃً تُعْتَقُہَا) ’’کیا تمھارے پاس آزاد کرنے کے لیے ’’غلام‘‘ ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا:جی نہیں، میں تو غریب آدمی ہوں، میرے پاس غلام کہاں؟ ارشاد فرمایا:(فَہَلْ تَسْتَطِیعُ أَنْ تَصُومَ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ) ’’کیا تمہارے پاس دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کی استطاعت ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا:نہیں یا رسول اللہ! میں دو ماہ کے مسلسل روزے بھی نہیں ر کھ سکتا۔ مسلسل روزوں سے مراد یہ ہے کہ 60دن کے روزے بغیر ناغہ کیے رکھے جائیں۔ جب اس نے اس سے بھی معذرت کی تو ارشاد فرمایا:(فَہَلْ تَسْتَطِیعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّینَ مِسْکِینًا) کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا نے کی طاقت رکھتے ہو؟ وہ صحابی کہنے لگے:یا رسول اللہ! میرے پاس انھیں کھانا کھلانے کی سکت نہیں۔ قارئین کرام! اسلام میں اس غلطی کے تین ہی کفارے ہیں اور یہ تینوں ہی ادا کرنے سے یہ صحابی قاصر ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ وہ صحابی آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا انتظار کررہا ہے کہ اب میرے لیے کیا حکم ہوتا ہے؟ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا اندازہ فرمائیں کہ آپ اس غریب آدمی کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ تھوڑی دیر گزری تو ایک شخص اپنے سر پر کھجوروں کا ٹوکرا اٹھائے ہوئے حاضر خدمت ہوتاہے۔ وہ اللہ
Flag Counter