Maktaba Wahhabi

320 - 342
قارئین کرام! اخلاق کی ایک اعلیٰ قسم یہ بھی ہے کہ مقروض اور محتاج لوگوں کی مدد کی جائے، بے روز گاروں کو روزگار مہیا کیا جائے۔ یتیموں اور بیواؤں کی حاجت روائی کی جائے۔ مہمان آئیں تو ان کی خوب مہمان نوازی کی جائے۔ اب دیکھیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ خدیجہ سے خاصی دولت ملتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تاجر تھے، آپ کا خاندان تاجر تھا۔ عام تاجروں کی عادت کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ اس دولت کو تجارت میں لگاتے، اس سرمایہ کو مزید بڑھاتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سرمایہ کو بڑھایا نہیں بلکہ اپنے رب پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے اس دولت کو ان لوگوں پر جن کو معاشرے میں کوئی پوچھنے والا نہ تھا، جو کمزور تھے، مقروض تھے، مسائل میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اس دولت کو ان پر خرچ کردیا۔ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقیروں کے ملجا، ضعیفوں کے ماویٰ، یتیموں کے والی اور غلاموں کے مولیٰ تھے۔، ، رحمۃ للعالمین للقحطاني، ص:73-69، والسیرۃ النبویۃ للصلابي:81/1،82 ۔ اس کی گواہی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس روز دی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر تاجِ نبوت رکھا گیا۔ ، ، صحیح البخاري، حدیث:3۔ یتیموں کے والی اور ان کے سب سے بڑے ہمدرد نے اپنی امت کو درس دیا کہ یتیم بچوں کی کفالت اور پرورش کریں کیونکہ وہ کمزور اور بے سہارا ہوتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:’’میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں (ان دو انگلیوں کی طرح) اکٹھے ہوں گے۔‘‘ یہ کہہ کر آپ نے درمیانی اور ساتھ والی انگلی کو ملا کر اشارہ کیا۔، ، صحیح البخاري، حدیث:5304۔
Flag Counter