اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ کی اس پیشکش کو قبول کرتے ہیں اور سامان تجارت لے کر شام کا سفر کرتے ہیں۔ پھر جس طرح سچے اور ایماندار تاجر ہوتے ہیں جو دھوکہ اور ملاوٹ نہیں کرتے، لوگوں کے ساتھ معاملات کو صحیح طریقے سے طے کرتے ہیں ان کے کاروبار میں برکت زیادہ ہوتی ہے، ان کا مال فوراً فروخت ہوجاتا ہے اور وہ عام تاجروں کے مقابلے میں زیادہ منافع کماتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
آپ زیادہ منافع کما کر واپس تشریف لاتے ہیں اور جب مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں توسیدہ خدیجہ نے اپنے مال میں ایسی امانت اور برکت دیکھی جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ ان کا غلام میسرہ بھی سیدہ کو آپ کے شیریں اخلاق ، بلند پایہ کردار کے متعلق خبر دیتا ہے۔ سیدہ خدیجہ کوتو گویا اپنا گوہر مطلوب دستیاب ہوگیا۔ اس سے پہلے ان کو متعدد سرداروں اور رؤسائے قبائل نے شادی کا پیغام بھیجا تھا جسے سیدہ نے مسترد کردیا۔ مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق سے وہ اس قدر متأثر ہوئیں کہ از خود پیغامِ نکاح بھجوا دیا۔ ،
، الرحیق المختوم، ص:60،61۔ والسیرۃ النبویۃ للصلابي:80،81۔
|