Maktaba Wahhabi

333 - 342
کے لوگوں کو اس پہاڑی کے نیچے جمع کر لیتے ہیں۔ آپ خود پہاڑی کے اوپر چڑھے ہوئے ہیں۔ یہاں آپ کو اپنے رشتہ دار بھی نظر آرہے ہیں اور پہاڑی کے دوسری طرف کا حصہ بھی نظر آرہا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قریش کی تمام شاخوں کے افراد کھڑے ہیں۔ یہاں پر بنو فہر، بنو عدی، بنو عبد مناف، بنو عبدالمطلب سبھی آگئے ہیں۔ آپ ان سے ایک سوال کررہے ہیں۔ میں پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور تم اس کے دامن میں ہو۔ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے اُس طرف دشمن کا لشکر آ پہنچا ہے جو تم پر حملہ کرنے کو تیار بیٹھا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے۔؟ قارئین کرام! بظاہر دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں دینا اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ قریش جو اتنے چوکنے تھے، ان کو معلوم بھی نہ ہو اور دشمن کا لشکر حملے کے لیے ان کے اتنا قریب آ پہنچا اور کسی کو کانوں کان اس کی بھنک تک نہ پڑی۔ مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاروشن ماضی قریش کے سامنے تھا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق سے خوب واقف تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ آپ نے ساری زندگی کبھی جھوٹ نہیں بولا، اسی لیے تو انھوں نے بیک آواز کہا:(نَعَمْ، مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ إِلَّا صِدْقًا) ’’ہاں ہاں، ہم آپ کی خبر پر ضرور یقین کریں گے اور اس کی و جہ یہ بتائی کہ ہمارا تجربہ یہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ سچ بولا ہے۔ ، ، صحیح البخاري، حدیث:4770، و صحیح مسلم، حدیث:208، والرحیق المختوم، ص:79،80۔ قارئین کرام! یہ بات کہنے اور دیکھنے کی نہیں کہ برادری اور رشتے داروں میں بعض لوگ رقیب بھی ہوتے ہیں ان کے لیے فضیلت کا اقرار اور اعتراف بڑا مشکل ہوتا ہے۔ مگر یہاں پر ساری برادری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی توثیق کررہی ہے اور آپ سے کہہ رہی ہے کہ آپ کے بارے میں ہمارا تجربہ سوائے سچ کے اور کچھ نہیں۔
Flag Counter