Maktaba Wahhabi

35 - 342
’’ وہ جب مدینہ طیبہ آیا تو اس سے مجھے اس قدر شدید نفرت تھی کہ وہ مجھے خنزیر سے بھی بدتر لگتا تھا‘‘ ( وَلَہُوَ الْیَوْمَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ بَعْضِ بَنِيَّ) ’’مگر اسلام لانے کے بعد یہ مجھے اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ پیارا لگنے لگا ہے۔ ‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’میرے صحابہ ! اپنے اس بھائی کو دین سکھاؤ، اسے قرآن پڑھاؤ اور اس کے قیدی (بیٹے وہب ) کو رہا کر دو۔‘‘ عمیر رضی اللہ عنہ اس حسن سلوک کا تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ اب وہ اپنی گزشتہ حرکات پر نادم ہے۔ ان کی تلافی کا خواہش مند ہے۔ عرض کرتا ہے:اللہ کے رسول ! میں نے اللہ کے نور کو بجھانے کی بہت کوشش کی، اب اپنے ان جرائم کی تلافی کرنا چاہتا ہوں، مجھے مکہ مکرمہ میں رہنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ میں اہل مکہ مکرمہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام کی طرف دعوت دوں گا۔ ان کی یہ درخواست منظور ہوئی، پھر وہ دین حق کے داعی بن کر مکہ مکرمہ میں مقیم رہے اور بہت سے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ ادھر صفوان اپنی مطلوبہ وپسندیدہ خبر کابڑی بے چینی سے منتظر تھا۔ وہ مدینہ طیبہ سے آنے والے ہر مسافر سے پوچھتا ۔ہاں بھئی تمہارے پاس کو ئی نئی خبر ہے؟ ایک دن اسے کسی سوار نے بتایا:صفوان! تمھارے لیے ایک بہت اہم خبر ہے ۔ اس نے کہا:جلدی بتاؤ کیا خبر ہے؟ سوار نے کہا:عمیر مسلمان ہوگیا ہے۔ اس کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اس نے قسم کھائی کہ وہ عمیر سے ساری زندگی کلام کرے گا نہ اس کے کسی کام آئے گا۔ سیرۃ ابن ہشام، والرحیق المختوم۔نیز یہ واقعہ سیرت کی کم وبیش سب کتابوں میں موجود ہے۔ قارئین کرام!کبھی آپ نے دیکھا یا سنا کہ کسی شخص نے قتل کے لیے آنے والے کواس طرح فراخدلی سے معاف کر دیا ہو۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جنہوں نے اپنے حسن اخلاق سے لوگوں کے دلوں کو جیتا اور سروں پر نہیں بلکہ دلوں پر حکومت کی۔
Flag Counter