Maktaba Wahhabi

141 - 208
شریک ہوئے تھے۔ شیخ کی وفات سے ٹھوڑا عرصہ بعد ۲؍ ۲؍ ۱۴۲۰ھ کو وزراء کی کیبنٹ کے اجلاس کے صدارتی خطاب میں شاہ فہد رحمہ اللہ نے بڑے عمدہ الفاظ میں شیخ کی صفات و خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا اور ان کی وفات کو ’’امّتِ اسلامیہ کا نقصان‘‘ قرار دیا تھا۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی گورننگ باڈی کے ایک جلسہ کی صدارت کے دوران شاہ فہد نے فرمایا تھا کہ شیخ ہم سب کے لیے والد کی جگہ ہیں اور وہ جو بھی فیصلہ کمیٹی کے لیے کریں گے میں ان سے پیشگی اتفاق ظاہر کرتا ہوں۔[1] عالی جناب شہزادہ احمد بن عبد العزیز اور شہزادہ سطام بن عبد العزیز کا شیخ سے تلمیذانہ تعلق بھی تھا، اسی طرح شہزادہ سلطان (ولی عہد ووزیر الدفاع) شہزادہ سلمان (گورنر الریاض)اور شہزادہ نایف (وزیر داخلہ) شیخ کے لیے دل میں بہت احترام رکھتے اور ان کی سفارشوں کو قبول کیا کرتے تھے۔ حاکم خاندان کی شہزادیوں کے یہاں بھی شیخ کا بہت مقام تھا حتیٰ کہ ان کی وفات پر شہزادی منیرہ بنت محمد البواردی حرم شہزادہ مشعل بن عبد العزیز آل سعود نے اپنے طویل تعزیتی مضمون میں ذکر کیا کہ ہم ہمیشہ فون کے ذریعے اور کبھی کبھی بالمشافہ ان سے راہنمائی حاصل کرتی رہتی تھیں۔وہ ایک نیک دل عالم، نرم خو والد، ہمارے بہت بڑے شیخ اور سعودی عرب کے لیے باعثِ فخر شخصیّت تھے۔ شہزادی منیرہ بنت سعود الکبیر نے اپنے تعزیتی بیان میں ذکر کیا کہ انھیں علمی مسائل میں راہنمائی کے سلسلہ میں کم از کم پانچ مرتبہ اپنے شیخِ جلیل کے گھر جانے کا موقع ملا تھا۔ شہزادی منال بنت مساعد بن سعود بن عبدالعزیز نے لکھا کہ یہ مجھ پر اللہ کا فضل و احسان ہے کہ مجھے بعض مسائل پوچھنے اور راہنمائی حاصل کرنے کے لیے
Flag Counter