Maktaba Wahhabi

84 - 208
مدد کرنے والا کوئی نہیں الّا یہ کہ لوگوں نے آپ کی طرف لکھنے کا کہاہے۔ شیخ رحمہ اللہ نے متعلقہ ادارے کے مسئولین کو لکھا کہ اس بے یار و مددگار عورت کی مدد کی جائے۔ جواب آیا کہ ہمارے یہاں ایسی کوئی مدّ نہیں کہ جس کی رو سے اس عورت کی مدد کی جائے جس کے شوہر کو کنویں میں گر ا کر ماردیا گیا ہو، مالی مدّات محدود ہیں۔شیخ نے اپنے کاتب کو حکم دیا کہ کیشیئر کو لکھیں : ’’میری تنخواہ میں سے دس ہزار ریال کاٹ کر اس عورت کو بھیج دو۔‘‘[1] 3 سعودی عرب بلکہ عرب دنیا کے معروف واعظ و مؤلف شیخ محمد صالح المنجد (امام و خطیب جامع عمر بن عبد العزیز، الخبر) کہتے ہیں کہ شیخ اتنے سخی تھے کہ ان سے کوئی جو کچھ مانگتا دے دیتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے بِشت (عباء) مانگی تو فوراً اتار کر عباء اس کے حوالے کر دی۔[2] بعض دیگر اہلِ علم (ڈاکٹر الشویعر) نے اسی واقعہ کے ضمن میں مزید لکھا ہے کہ وہ شخص افریقی تھا اور اس نے جان بوجھ کر عباء مانگی تھی، اس نے اسی وقت پہنی ہوئی بِشت لینے پر اصرار کیا تھا اور جب مل گئی تو روتے ہوئے کہا تھا کہ میں عمر بھر اس اعزاز پر فخر کیا کروں گا۔[3] 4 شیخ کے وکیل و مختار ڈاکٹر عبد اللہ لکھتے ہیں کہ پرانی بات ہے کہ المعہد الشرعی کے طلبہ نے ایک دن دوپہر اور شام کا کھانا نہ کھایا، کچھ ملا ہی نہیں تھا۔ شیخ کو خبر ملی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ ان کے پاس اس وقت صرف ایک ہی گاڑی تھی فوراً بیچ دی اور طلبہ کے لیے کھانے کا سامان خرید کر دے دیا۔[4]
Flag Counter