Maktaba Wahhabi

45 - 129
تک اس کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ امام ابوالقاسم القشیری فرماتے ہیں۔ یہ لفظ محبت حبۃ سے ماخوذہے جس کے معنی جنگل بیج کے ہیں چنانچہ جس طرح بیج نباتات کا مغز ہے۔ اسی طرح محبت بھی زندگی کا مغز ہے اس لئے اس کا نام محبت رکھا گیا ہے۔ محبت کا یہ مفہوم مذکورہ بالا دونوں مفاہیم سے منفرد اور عجیب تر ہے یہ بمعنی استقلال یعنی ڈٹے رہنا ، جمے رہنا، عربی محاورہ میں کہا جاتا ہے احب البصیر ۔ یعنی اونٹ کا بیمار ہو کر ایک جگہ پڑے رہنا کہا جاتا کہ جب اُونٹ محبت میں مست ہو جاتا ہے تو چالیس دن تک وہ گھاس نہیں کھاتا اُس پر پہلے سے دو گنا بوجھ لاد دیا جاتا ہے تو وہ اُسے اُٹھا لیتا ہے ۔ کیونکہ اس کا دل فراق محبوب میں تڑپتا اورمچلتا رہتا ہے۔ محبت دل وہ جوش ہے دوست کے اشتیاق میں کسی پسندیدہ چیز کی طرف میلان طبع کا نام محبت ہے اگر اسمیں شدّت پید اہو جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ تعریف محبت:۔ ابوبکر ؒ فرماتے ہیں کہ اَیّام حج کے دوران مکّہ مکرمہ میں محبت کا مسئلہ چل نکلا بڑے بزرگوں نے اس کے بارے گفتگو فرمائی ۔ حضرت جنید بغداد عمر میں سب سے چھوٹے تھے۔ انہوں نے ان کو مخاطب ہو کر فرمایا اب تمہاری باری ہے۔ بتاؤ کیا بولتے ہو تو انہوں نے اپنے سر کو جھکایا۔ تو آپ کی آنکھوں میں آنسو رواں ہو گئے انہوں نے فرمایا مُحبّ وہ بندہ ہے جو اپنی ذات سے غافل ہو۔ ہمیشہ اپنے رَبّ کے ذکر میں مشغول رہے اس کے حقوق ادا کرے۔ اپنے دل کی نگاہ اس کا مشاہدہ کرے۔ اس کی ہیبت کے انوار نے اس کے دل کو جلارہا ہو۔ اس نے اللہ کی محبت کا جام طہور پیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے غیب کے پردے اس پر منکشف کر دیئے ہوں۔ اگر وہ گفتگو کرے تو اللہ کے ساتھ بولے تو اللہ سے اگر حرکت کرے تو اللہ کے حکم سے اگر ساکن ہو تو اللہ کے ساتھ یعنی اِسے بااللہ اللہ اور مع اللہ کی کیفیت حاصل ہو۔ تمام بزرگ ان کی گفتگو سن کر رونے لگے کہ اے اللہ کے بندے اللہ تعالی آپ کو جزائے
Flag Counter