Maktaba Wahhabi

126 - 342
کہ کب کوئی قافلہ آئے اور وہ ان سے قرآن سیکھے۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے درخواست کرتا کہ وہ اس کی بستی میں تھوڑا سا اور رُک جائیں تاکہ وہ قرآن سیکھ سکے۔ قریشِ مکہ نے ہر جگہ اپنے جاسوس چھوڑ رکھے تھے کہ اگر کوئی مسلمان ان کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ اسے پکڑ کر واپس لائیں۔ عبد العزیٰ کا چچا بھی اسلام کا سخت مخالف تھا۔ قارئین کرام! کم و بیش تین سال اسی طرح گزر گئے۔ ہجرت کا چوتھا سال شروع ہوچکا تھا ۔ ایک مرتبہ قافلے میں شریک کسی مسلمان نے عبدالعزیٰ سے کہہ دیا کہ تم یہاں کیا کررہے ہو؟ تم ہجرت کیوں نہیں کرتے؟ عبدالعزیٰ کہنے لگا کہ تمھاری بات تو ٹھیک ہے مگر میں اپنے پیارے چچا کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ میں اس وقت ہجرت کروں گا جب میں اپنے چچا کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ عبدالعزیٰ عبادت کے لیے صحرا میں نکل جاتا ۔ جب اسے یقین ہو جاتا کہ اسے کوئی دیکھنے والا نہیں ہے تو وہ نماز ادا کرتا۔ اپنے چچا کو ملتا تو اسے بڑے پیار اور حکمت سے کہتا کہ چچا! میں نے یثرب میں محمد نامی ایک شخصیت کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں۔وہ چچا کو قرآن کریم کی آیات سناتا۔ ادھر اس کے چچا کا رویہ نہایت سرد تھا۔ وہ جواب میں اسے کچھ نہ کہتا۔ اسی کشمکش میں وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اس نے بڑی محبت سے اپنے چچا سے کہا:پیارے چچا! میں نے ایک مدت آپ کا انتظار کیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ آپ اسلام قبول کرلیں گے، مگر آپ نے اسلام قبول نہیں کیا۔ اب آپ کو یہ بات بتانے کا وقت آپہنچا ہے کہ میں نے عقیدئہ توحید قبول کر لیا ہے اور (أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّداً
Flag Counter