Maktaba Wahhabi

171 - 342
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔ فرمایا:ابو جندل! اسے اپنے لیے باعثِ ثواب سمجھو۔ ہم نے قریش کے ساتھ صلح کرلی ہے۔ ہم بد عہدی نہیں کر سکتے۔‘‘، ، صحیح البخاري، حدیث:2731،2732،4181، والرحیق المختوم، ص:351، وأسدالغابۃ:585/2، 587۔ قارئین کرام! آپ نے اوپر سہیل بن عمرو کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھبد لحاظی کا حال پڑھ ہی لیا ہے کہ کس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابو جندل رضی اللہ عنہ کے معاملے میں فرما رہے ہیں:میری خاطر ہی اسے چھوڑ دو، مگر وہ انکار کر رہا ہے۔ مگر آئیے! ہم فتح مکہ مکرمہ کے روز دیکھتے ہیں کہ سہیل بن عمرو کیا کر رہا ہے؟ جب نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے گھر کے اندر بیٹھ جائے، اسے بھی امان ہے تو سہیل نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا۔ اس کا بیٹا عبداللہ پہلے سے مسلمان ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ میرے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے امان طلب کرو۔ مجھے ڈر ہے کہ مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ خود سہیل کہتا ہے:میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے ساتھ اپنے گزشتہ سلوک کو یاد کرتا تو مجھے نظر آتا کہ مجھ سے زیادہ برا سلوک کرنے والا کوئی نہ تھا۔حدیبیہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس طرح پیش آیا تھا، کوئی اور ایسے پیش نہ آیا تھا۔ اس روز میں نے ہی وہ مسودہ طے کیا اور مزید یہ کہ میں جنگِ بدر اور احد میں بھی مسلمانوں کے مدِمقابل رہا تھا۔ جب بھی قریش کوئی مخالفانہ کارروائی کرتے میں ان کے ساتھ ہوتا۔ مگر قارئین کرام! اس کے باوجود ہزار بار قربان جائیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم وبردباری پر۔ آپ کے اعلیٰ اخلاق کو ملاحظہ کیجیے کہ جب عبداللہ بن سہیل رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت
Flag Counter