Maktaba Wahhabi

172 - 342
کرتے ہیں:اللہ کے رسول! کیا آپ سہیل کو امان دیں گے؟ ارشاد فرمایا:(نَعَمْ ھُوَ آمِنٌ بِأَمَانِ اللّٰہِ فَلْیَظْھَرْ) ’’ہاں! وہ اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان سے مامون و محفوظ ٹھہرا۔ اسے چھپنے کی ضرورت نہیں، اسے چاہیے کہ سامنے آ جائے۔‘‘ اور پھر ارد گرد بیٹھے ساتھیوں کی طرف شفقت بھری نگاہوں سے دیکھا اور فرمایا: ’’جو شخص سہیل بن عمرو کو ملے، اس کی طرف تیز نگاہ سے بھی نہ دیکھے اور سہیل کو چاہیے کہ وہ باہر نکلے۔ اللہ کی قسم! سہیل تو بڑا دانا اور معزز ہے۔ سہیل جیسا عظیم شخص اسلام سے بے بہرہ نہیں رہ سکتا۔‘‘اور پھر فرمایا:(وَلَقَدْ رَأَی مَا کَانَ یُوضَعُ فِیہِ أَنَّہُ لَمْ یَکُنْ لَہُ بِنَافِعٍ) ’’اس نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے کہ جس کے لیے اسے دوڑدھوپ کرائی جاتی تھی، اس نے اسے کوئی نفع نہیں پہنچایا۔ ‘‘ عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سہیل کی طرف جاتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے اس کے گوش گزار کرتے ہیں۔ اور پھر سہیل ایک گواہی دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ ’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ایفائے عہد والا کوئی نہیں۔ وہ بچپن سے ہی اپنے وعدوں کو پوراکرنے والے ہیں۔‘‘ سہیل کو امان مل گئی ہے، وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا۔ مگر مکہ مکرمہ میں عام زندگی گزار رہا ہے۔ چند دن گزرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے لیے تشریف لے جاتے ہیں اور جب آپ جعرانہ میں تشریف فرما ہوئے تو سہیل بن عمرو نے آکر اسلام قبول کر لیا۔ اللہ کے رسول نے ان کو 100اونٹ عطا فرمائے ۔، ، المستدرک للحاکم:281/3، والمغازي للواقدی، ص:569، والسیرۃ النبویۃ للدکتور محمد علي الصلابي:539/2، والاستیعاب، ص:462-461۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل کے بارے میں جو الفاظ کہے تھے، ان کی جو صفات بیان کیں تھیں، ان کو وہ عمر بھر نہیں بھولے۔ وہ بقایا زندگی صلح پسندی اور نیکی کا تذکرہ کرتے رہے اور بڑے اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔
Flag Counter