Maktaba Wahhabi

192 - 342
ضمام اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست مخاطب ہوا۔ کہنے لگا:کیا آپ ہی ابن عبدالمطلب ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تمھارے سوال کا جواب دیا جا چکا ہے۔‘‘ پھر اس نے اپنا تعارف کروایا، نام بتایا اور کہنے لگا کہ میری قوم نے چند باتوں کی تحقیق کے لیے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ میں بدو ہوں۔ میرے لب و لہجے اور انداز گفتگو کی درشتی کو محسوس نہ فرمائیے گا۔ قارئین! ذرا اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کو ملاحظہ کیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناراض نہیں ہوئے کہ تمھیں گفتگو کا طریقہ اور سلیقہ آنا چاہیے بلکہ آپ فرما رہے ہیں: ’’جو انداز گفتگو چاہو اختیار کر لو۔جو جی میں آئے پوچھو، میرے دل میں ہر گز کوئی میل نہیں آئے گا۔ تم بے تکلف ہو کر اطمینان سے بات کرو‘‘۔ وہ اب سوال کر رہا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہایت اطمینان سے اس کے سوالوں کے جوابات دے رہے ہیں۔ میں آپ کو آپ کے رب اور آپ سے پہلے گزری ہوئی امتوں کے رب کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو واقعی اللہ رب العزت نے تمام ابنائے آدم کی طرف نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔ ارشاد فرمایا:’’اللہ کی قسم! حقیقت یہی ہے۔‘‘ پھر اس نے رمضان کے بارے میں سوال کیا۔ اگلا سوال زکاۃ کے بارے میں تھا:کیا واقعی آپ کو اللہ نے حکم دیا ہے کہ امراء سے زکاۃ لے کر اسے فقراء میں تقسیم کریں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا۔ ضمام بے ساختہ کہنے لگا:آپ جو شریعت لے کر آئے ہیں، میں اس پر ایمان لاتا ہوں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ضمام نے پوچھا:ان بلند و بالا آسمانوں کو کس نے بنایا ہے؟ ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے۔‘‘ اس نے دریافت کیا:یہ زمین کس نے بچھائی ہے؟ ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے۔‘‘ اس نے سوال کیا:ان پہاڑوں کو کس نے نصب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے۔‘‘
Flag Counter