Maktaba Wahhabi

234 - 342
یہ لشکر بنو خزاعہ کا نہیں ہو سکتا، ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اس قدر جلتی ہوئی آگ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لشکر بہت بڑا ہے۔ خزاعہ میں اتنی طاقت نہیں۔ اسے حسن اتفاق کہہ لیں اور اللہ تعالیٰ کی مشیت بھی یہی تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر بیٹھ کر اپنے کیمپ سے نکل کر اس طرف آ پہنچے جہاں یہ تینوں آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ انھوں نے ابوسفیان کی گفتگو سن کر اسے پہچان لیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ابوسفیان کو اس کی کنیت سے آواز دی:ابوحنظلہ؟ ابوسفیان نے بھی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو پہچان لیا اور کہا:ابوالفضل؟ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ہاں۔ ابو سفیان کہنے لگا:کیا بات ہے؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ:ابوسفیان! تمھارا برا ہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قریب ہی ہیں۔ اللہ کی قسم! قریش کی تباہی نظر آرہی ہے۔ ابوسفیان:میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اب کیا کیاجاسکتا ہے؟ سیدناعباس رضی اللہ عنہ:اگر تم مسلمانوں کے ہاتھ لگ گئے تو وہ تمھیں قتل کر دیں گے۔ تم میرے ساتھ خچر پر بیٹھو، میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لیے چلتا ہوں اور ان سے تمھارے لیے امان طلب کرتا ہوں۔ قارئین کرام! اگر ابوسفیان کے جنگی جرائم کے بارے میں لکھاجائے تو پوری کتاب بن جائے مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کو ملاحظہ کیجیے کہ آپ اپنے سب سے بڑے دشمن کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟
Flag Counter