Maktaba Wahhabi

236 - 342
(وَیْحَکَ یَا أَبَاسُفْیَانَ! أَلَمْ یَأْنِ لَکَ أَنْ تَعْلَمَ أَنِّي رَسُولُ اللّٰہِ؟) ’’ابوسفیان! تم پر افسوس ہو، کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم جان سکو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟‘‘ ابوسفیان:میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کس قدر حلیم، کس قدر کریم اور کس قدر صلہ رحمی کرنے والے ہیں تاہم اس بات کے بارے میں اب بھی میرے دل میں کچھ نہ کچھ کھٹک ہے۔ سیدنا عباس:ابوسفیان تجھ پر افسوس! اس سے پہلے کہ تیری گردن مار دی جائے اسلام قبول کر لے۔ یہ چندلمحات کی بات ہے کہ ابوسفیان اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ کلمۂ شہادت پڑھ لیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بے شمار قصوروں اور جرائم کو معاف کر دیا ہے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کرتے ہیں:اللہ کے رسول! ابوسفیان چودھراہٹ پسند آدمی ہیں انھیں کوئی اعزاز دے دیجیے۔ قارئین کرام! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو دیکھیے کہ ماضی میں ابوسفیان کی اسلام اور آپ کے ساتھ ہزار دشمنی کے باوجود سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی سفارش قبول فرماتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: (نَعَمْ! مَنْ دَخَلَ دَارَ أبِي سُفْیَانَ فَھُوَ آمِنٌ) ’’ٹھیک ہے جو شخص ابوسفیان کے ڈیرے میں داخل ہو جائے اسے امان ہے۔‘‘، اس طرح نہ صرف ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول ہوتا ہے بلکہ اسے معافی کے ساتھ ساتھ اعزاز بھی مل جاتا ہے۔ اگر ہم دنیا کے بادشاہوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو فاتح اقوام اپنے دشمنوں کو چن چن کر قتل کرتی ہیں۔ وہ ان کا نام و نشان مٹا دیتی ہیں۔ وہ تو ان کے سروں کے مینار بناتے ہیں مگر یہاں تو رحمت ہی رحمت ہے، معافی ہے اور دشمنوں کو بھی گلے لگایا جا رہا ہے۔ دنیا میں اور بھی کوئی ایسا قائد ہو تو سامنے لایا جائے! ، البدایۃ والنہایۃ:538/4، 542، والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام:47-43/4، وسیرأعلام النبلاء:107-105/2، والاستیعاب:807۔
Flag Counter