Maktaba Wahhabi

255 - 342
انھوں نے اپنی لگائی بجھائی سے ماحول کو مزید خراب کردیا۔ تھوڑی دیر بعد مجلس کا ماحول اس قدر بگڑا کہ نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فریقین کو ٹھنڈا کیا، انھیں سمجھایا، چپ کرایا۔ تھوڑی دیر کے بعد ماحول خوشگوار ہوتا چلا گیا۔ عبداللہ بن ابی نے جس خبث باطن کا مظاہرہ کیا تھا، یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجلس کا ماحول ٹھیک دیکھا تو اپنے گدھے پر سوار ہو کر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر والوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شاندار استقبال کیا۔ ان کے لیے اس سے بڑھ کر عزت کی بات کیا ہو سکتی تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائیں۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجلس میں عزت سے بٹھایا۔ قارئین کرام! سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن ابی دونوں ہی خزرج کے بڑے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(أَیَاسَعْدُ! أَلَمْ تَسْمَعْ مَاقَالَ أَبُوحُبَابٍ) ’’سعد! تم نے سنا نہیں کہ ابو حباب نے کیا کہا ہے۔‘‘ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کواس کی گفتگو سنا دی۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (اُعْفُ عَنْہُ وَاصْفَحْ) ’’اسے معاف کر دیں، اس سے درگزر کریں۔‘‘ اس شخص کو اپناسربراہ بنانے پر اوس اور خزرج نے اتفاق کر لیاتھا۔ اس کے لیے مونگوں کا تاج تیار کیاجا رہا تھا تاکہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھ کر اس کی باقاعدہ بادشاہت کا اعلان کر دیا جائے مگر اس دوران میں آپ تشریف لے آئے۔ لوگ اس کو بھول کر آپ پر اسلام لے آئے۔ اب وہ یہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس کی بادشاہی چھین لی ہے۔، ، صحیح البخاري، حدیث:4566، و صحیح مسلم، حدیث:1798۔ اوپر والے واقعے کے تھوڑے عرصے بعد ہی غزوئہ بدر پیش آتا ہے جس میں قریش کے بڑے بڑے 70 سردار قتل ہو جاتے ہیں۔ اب عبداللہ بن ابی نے بھی بادل نخواستہ اسلام قبول کر لیا مگر اس کے دل میں
Flag Counter