Maktaba Wahhabi

42 - 342
تھے، اس کی خوشی کا عالم کیاتھا؟ وہ بیٹی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ کو کیسے بھول سکتے تھے: (ہٰذَا سَنَا یَا أُمَّ خَالِد!ٍ ہٰذَا سَنَا) ’’ام خالد! یہ بہت خوبصورت کپڑا ہے، یہ تمہیں بہت جچ رہا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث:5845۔ و سنن أبي داود، حدیث:4026) قارئین کرام! یہ تھی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہمارے نبی، ہمارے ہادی اور ہمارے راہنما کے اعلیٰ اخلاق اور شفقت ومحبت کی ایک جھلک۔ ام خالد بچپن ہی سے بہت ذہین و فطین بچی تھیں۔ غزوہ خیبر کے ایام میں دوبڑے بحری جہاز مہاجرین کو لے کر مدینہ طیبہ آئے۔انھی دنوں اہل اسلام کو خیبر کی فتح نصیب ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی آنے والوں میں شامل تھے۔ مہاجرین جب وہاں سے آنے لگے تو نجاشی اپنے حاشیہ برداروں اور دیگر لوگوں کے ساتھ انہیں ا لوداع کرنے کے لیے آیا تھا۔ اس نے مسلمانوں کو وصیت کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے میرا سلام کہنا نہ بھولنا۔ ام خالد رضی اللہ عنہا بھی وہاں موجود تھیں۔ اس ذہین بچی نے اس بات کو یاد رکھا۔ اس کی خواہش تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے نجاشی کا سلام وہی پہنچائے۔ آپ نے مہاجرین حبشہ کا استقبال کرتے ہوئے فرمایاتھا: (وَاللّٰہِ لَا أَدْرِي بِأَیِّہِمَا أَفْرَحُ، بِفَتْحِ خَیْبَرَ أَمْ بِقُدُومِ جَعْفَرٍ) ’’ اللہ کی قسم!مجھے پتا نہیں چل رہا کہ آج مجھے کس بات کی زیادہ خوشی ہے، خیبر فتح ہونے کی یا جعفر کے آنے کی۔‘‘ ام خالد رضی اللہ عنہا سلام کہنے والی بات کو نہیں بھولی تھی ، اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کومسکراتے ہوئے نجاشی کا سلام پہنچا دیا۔ ابن حجر نے ’الإصابۃ‘ میں ذکر کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچی کو پیار کیا اور اس کی کنیت ام خالد رضی اللہ عنہا رکھی۔
Flag Counter