Maktaba Wahhabi

50 - 342
دے رکھی ہے۔ میرا حقیقی بھائی علی بن ابی طالب ان کو قتل کرنا چاہتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ یَا أُمَّ ہَانِیئٍ) ’’ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی، اسے ہم نے بھی پناہ دی۔‘‘ قارئین کرام! ایک اور روایت کے مطابق جب انھوں نے اپنے دیوروں کو پناہ دی تو انہیں کمرے میں بند کردیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان کو قتل کرنا چاہتے تھے مگر اس بہادر خاتون نے ان کا دفاع کیا۔ اپنے بھائی کو روکا اور سیدھی اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غسل فرمارہے تھے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کپڑے سے پردہ کیا ہوا تھا۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ’’کون ہے؟‘‘ میں نے عرض کی:ام ہانی بنت ابی طالب۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(مَرحَبًا بِأُمّ ہَانِیئٍ)۔ ’’ام ہانی! خوش آمدید۔‘‘ جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو آپ نے آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی۔ سیدہ ام ہانی نے عرض کی: اللہ کے رسول ! میں اپنے ماں جائے بھائی علی کی شکایت لے کر حاضر ہوئی ہوں: (إِنَّہُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُہُ فُلَانَ بْنَ ہُبَیْرَۃَ، فَقَالَ صلي اللّٰه عليه وسلم:قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ یَا أُمَّ ہَانِیئٍ) ’’علی فلاں ابن ہبیرہ کو قتل کرنا چاہتے ہیں جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ام ہانی! فکر نہ کرو جسے تم نے پناہ دی، اسے ہم نے بھی پناہ دی۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث:357۔ و صحیح مسلم، حدیث:336) قارئین کرام! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کا ایک اور پہلو سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے درج ذیل واقعے میں بھی نظر آتا ہے: فتح مکہ مکرمہ کے بعد سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کاخاوند ہُبیرہ نجران کی طرف بھاگ گیا تھا۔ وہیں اس کی موت
Flag Counter