واپس مدینہ طیبہ لوٹے گا تو جو معزز ہے وہ ذلیل کو باہر نکال دے گا۔‘‘
حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:آپ چاہیں تو اللہ کی قسم! آپ خود ہی اسے مدینہ طیبہ سے نکال دیں گے۔ اللہ کے رسول! آپ صاحب عزت ہیں، ذلیل تو وہی ہے۔ پھر عرض کی:اللہ کے رسول! اس سے نرمی برتیے۔ اللہ کی قسم! آپ کو اللہ تعالیٰ ہمارے پاس اس وقت لایا جب قوم اس کے لیے موتی پرو رہی تھی کہ اسے بادشاہی کا تاج پہنا دیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس کی بادشاہی چھین لی ہے۔
یہی باتیں تفصیل سے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت پہنچیں جب ان کا باپ غزوئہ بنی مصطلق سے واپس آرہا تھا اور ابھی شہر میں داخل نہیں ہوا تھا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے میان سے تلوار نکالی اور باپ کے راستے میں کھڑے ہو گئے۔ باپ کی سواری آئی تو اسے روک لیا۔
نیک بخت بیٹے نے باپ سے کہا:
(أَ أَنْتَ الَّذِي تَقُولُ لَئِنْ رَّجَعْنَا إِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْھَا الْأَذَلَّ تُرِیْدُ رَسُولَ اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم )
’’کیا تم نے یہ بات کہی ہے کہ جب ہم واپس مدینہ طیبہ جائیں گے تو عزت دار ذلیل کو شہر
|