Maktaba Wahhabi

55 - 342
قارئین کرام! محبت اس کا نام ہے۔ اس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت کہتے ہیں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتا ہے:اللہ کی قسم! سارے خزرج کو معلوم ہے کہ پورے قبیلے کا کوئی آدمی مجھ سے بڑھ کر اپنے والد کا خدمت گار نہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ آپ نے کسی اور کو اس کے قتل کاحکم دیا تو شاید میں برداشت نہ کر پاؤں۔ اپنے باپ کے قاتل کو لوگوں میں چلتا پھرتا دیکھوں گا تو کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کر بیٹھوں گا اور جہنم کا مستحق ٹھہروں گا۔ ذرا غور کیجیے کہ بیٹا اپنے منافق باپ کے قتل کی اجازت طلب کر رہا ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھیے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:(بَلْ نَتَرَفَّقُ بِہِ وَ نُحْسِنُ صُحْبَتَہُ مَا بَقِيَ مَعَنَا)’’بلکہ ہم اس سے نرمی کا برتاؤ کریں گے اور جب تک وہ بظاہر ہمارے ساتھ ہے، اس سے اچھا سلوک ہی کریں گے۔‘‘ قارئین کرام! آپ دیکھیے ایک بیٹے کا مضبوط مؤقف، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اخلاص، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و رضا کو باپ کی محبت و رضا پر مقدم رکھنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ایمانِ کامل کی دلیل ہے۔ نیک بخت بیٹے نے باپ سے محبت کی بھی ایک مثال قائم کر دی۔ ذرا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کو بھی ملاحظہ کیجیے کہ خلق عظیم کے مالک نے بیٹے کے سوال کا جواب بھی کشادہ دلی، درگزر، شفقت اور حسن سلوک کے ساتھ دیا ہے۔ ایسی درگزر کے کیا کہنے!!عظمت اخلاق نبوی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ و جلال کی بات ہی کیاہے! (الرحیق المختوم:341، و السیرۃ النبویۃ للصلابي:269/2، 270، والبدایۃ والنہایۃ:366/4، 368)
Flag Counter