Maktaba Wahhabi

60 - 342
اس کے ناپاک ارادے ناکام بنا دیتے تھے۔ ثمامہ ایک حفاظتی دستے کی گرفت میں آگیا۔ چونکہ یہ شخص اپنے کفر میں معروف تھا اور اسلام دشمنی میں اس کے عزائم ڈھکے چھپے نہ تھے، اس لیے اُسے گرفتار کر کے مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیاگیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دشمن اسلام کی گرفتاری کی خبر دی گئی۔ آپ تشریف لائے، اُسے دیکھا۔ لمبا قد، خوبصورت چہرہ، توانا جسم، بھرا ہوا سینہ، اکڑی ہوئی گردن، اٹھی ہوئی نگاہیں، تمکنت، شان، شکوہ، سَطوت، صَولت، غرض برے حکمرانوں والے تمام عیوب اس کی شخصیت سے عیاں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور پوچھا:’’ثمامہ کیا حال ہے؟ آخر میرے رب نے مجھے تم پر قابو دے ہی دیا۔‘‘ اس نے نہایت غصے اور تکبر سے جواب دیا:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! ٹھیک ہے۔ معاملہ ایسا ہی ہو گیا ہے مگر سنو! اگر تم مجھے قتل کرو گے تو میرے قتل کا بدلہ لیا جائے گا کیونکہ میں کوئی معمولی آدمی نہیں ہوں اور اگر مجھے معاف کر دو گے تو ایک ایسے شخص کو معاف کرو گے جو اس کا شکر گزاری کے ساتھ بدلہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہاں، اگر مال و دولت کی ضرورت ہو تو جتنا چاہو دیا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام! ذرا یہاں رک جایئے۔ اس کی گفتگو اور لب و لہجے پر غور فرمایئے کہ وہ تاریخ کی سب سے بڑی شخصیت سے کتنی بے ادبی سے اور کس قدر متکبرانہ انداز میں گفتگو کر رہا ہے۔ دنیا کا کوئی اور حکمران ہوتا تو اسی وقت اس گستاخ کی گردن اڑانے کا حکم دے دیتا، مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم، صبرو ثبات، عالی ظرفی اور اعلیٰ اخلاق کے کیا کہنے کہ گستاخانہ گفتگو سننے کے بعد بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ کوئی سخت بات نہیں فرمائی بلکہ صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اس کی ضیافت کرو۔
Flag Counter