Maktaba Wahhabi

61 - 342
دوسرا دن ہوا تو پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ثمامہ کے پاس سے گزرے اور دریافت فرمایا:’’ثمامہ کیا حال ہے؟‘‘ اس نے پھر کہا:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! خیریت سے ہوں۔ (إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ) ’’اگرقتل کر دو گے تو یہ ایک ایسے شخص کا قتل ہو گا جس کا خون رائیگاں نہ جائے گا۔ ‘‘ (وَإِنْ تَعْفُ تَعْفُ عَنْ شَاکِرٍ وَ إِنْ تَسْأَلْ مَالًا تُعْطَہٗ) ’’ اگر معاف کر دو گے تو ایسے شخص کو معاف کرو گے جو شکرگزار ہو گا اور اگر مال چاہتے ہو تو بات کرو، پیش کر دیا جائے گا۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جیسے مساکین آپس میں گفتگو کرتے تو کہتے تھے:اسے قتل کر کے کیا ملے گا؟ امیر آدمی ہے، اس سے مال ہی لے لینا چاہیے۔ کم از کم کچھ دنوں کے لیے روٹی تو میسر آجائے گی۔ تیسرا دن ہوا، آج اسی چیز کا فیصلہ ہونا تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا:’’ثمامہ کس حال میں ہو؟‘‘ اس نے حسب سابق کہا:خیر ہے اور ساتھ ہی اپنے گزشتہ الفاظ دہرادیے جن میں اس نے بڑے طمطراق سے فخریہ انداز میں اپنے قبیلے کا ذکر کیا، اپنے مال و دولت کی کثرت کا اظہار کیا اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے ڈالی۔ صحابہ کرام منتظر ہیں کہ دیکھیں اس گستاخ کو کیا سزا ملتی ہے۔ وہ آپ کی آواز اور حکم کی طرف کان لگائے کھڑے تھے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:’’اس کی رسیاں کھول دو۔‘‘ پھر ثمامہ سے فرمایا:’’جاؤ میں تمھیں بغیر کسی شرط کے رہا کرتا ہوں۔‘‘ حکم کی تعمیل ہوئی، ثمامہ کو رہا کر دیا گیا۔ اس نے اپنی سواری پکڑی اورمدینہ طیبہ سے باہر بھاگنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لطف و کرم سے وہ
Flag Counter