Maktaba Wahhabi

62 - 342
اپنی جان سلامت لے کر نکل آیا تھا لیکن وہ اپنا دل تو رحمۃ للعالمین ہی کے پاس چھوڑ آیا تھا۔ مسجد نبوی سے باہر نکلتے ہوئے اُسے بے اختیار خیال آیا کہ اتنا برگزیدہ اور اتنا بلند حوصلہ انسان تومیں نے آج تک نہیں دیکھا۔ میرے الفاظ میں کتنی شدت اور حدّت تھی مگر اس کے باوجود ان کا تحمل ان کے غصے پر غالب آیا اور انھوں نے مجھے رہا کر دیا… اُردو کے کسی شاعرنے اسی کیفیت کو بیان کیا ہے: ؎ اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے! سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کے ایک باغ میں گیا، کنویں پر غسل کیا، صاف ستھرے کپڑے پہنے، پھر اس کے قدم خود بخود مسجد نبوی کی طرف بڑھنے لگے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک مسجد نبوی میں ہی تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا: ’’ثمامہ! ہم نے تو تمھیں چھوڑ دیا تھا تم پھر چلے آئے؟!‘‘ اُس نے عرض کیا:آپ کا رہا کرنا بھی کیا خوب رہا کرنا ہے۔ آپ نے چھوڑا تو ہے مگر ہمیشہ کے لیے اپنا بنا کر۔ اب میں بادشاہ نہیں آپ کاغلام ہوں۔ میری تمنا ہے کہ مجھے کلمہ پڑھایئے اور اپنے جاں نثاروں میں شامل کر لیجیے۔ اسلام کی نعمت ملنے کے بعد اس نے کہا:اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )!اس کائنات میں آپ کا چہرہ میرے لیے سب سے زیادہ قابل نفرت تھا۔ آپ کے دین کو میں نہایت برا سمجھتا تھا۔ آپ کا شہر میرے لیے سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا۔ مگرآپ کے دامان رحمت میں آجانے کے بعد اب آپ کا چہرہ مجھے کائنات کے سب چہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ دنیا کا کوئی دین آپ کے دین سے بہتر اور افضل نہیں۔ آپ کی یہ بستی روئے زمین کی ساری بستیوں کے مقابلے میں میرے لیے محبوب ترین ہے۔
Flag Counter