Maktaba Wahhabi

77 - 342
نے ہر موقع پر عفو ودرگزر سے کام لیا اور بڑے بڑے مجرموں کو بھی معاف کردیا۔ صفوان کے ساتھ کیا ہوا؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ صفوان مکہ مکرمہ سے بھاگا تو سیدھا جدہ کا رخ کیا۔ اس کی خواہش اور بھرپور کوشش تھی کہ اسے کوئی کشتی یا بحری جہاز مل جائے جو اسے یمن پہنچادے۔عمیر بن وہب اس کا چچازاد بھائی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک سے متأثر ہوکر سن دو ہجری میں مدینہ طیبہ میں مسلمان ہوگیاتھا۔صفوان کو جب عمیر رضی اللہ عنہ کے اسلام کے بارے میں علم ہوا تو اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ ساری زندگی عمیرسے بات نہیں کرے گا۔ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے محبت تو ہوتی ہی ہے۔ عمیر رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ صفوان اپنی حرکات کے باعث آگ سے کھیل رہا ہے۔ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صفوان کے لیے امان طلب کی، عرض کی:اللہ کے رسول! صفوان اپنی قوم کا سردار ہے وہ ڈر کے مارے بھاگ گیا ہے ۔ ارشاد فرمایا:’’صفوان آجائے اسے ہماری طرف سے امان ہے۔‘‘ عمیر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:اللہ کے رسول! اس کے جرائم بہت زیادہ ہیں۔ ہوسکتا ہے اسے اعتبار نہ آئے، اس کے لیے کوئی نشانی عطا فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک اور دوسری روایات کے مطابق اپنا عمامہ مبارک اتار کرعمیر رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا جسے آپ نے مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت پہن رکھا تھا۔ عمیر رضی اللہ عنہ جدہ پہنچتے ہیں۔صفوان کوئی عام آدمی نہ تھا۔ یہ مکہ مکرمہ کے معروف سرداروں اور سرمایہ داروں میں سے تھا۔ صفوان کشتی کی تلاش میں تھا۔عمیر رضی اللہ عنہ اس کے پاس پہنچتے ہیں۔ صفوان انھیں دیکھتے ہی چلّایا:(اُغْرُبْ عَنِّي فَلَا تُکَلِّمْنِي)’’مجھ سے دور ہوجاؤ اور میرے ساتھ بات نہ کرو۔‘‘ عمیر رضی اللہ عنہ بڑی حکمت سے کام لیتے ہیں اور نہایت خوبصورت انداز اپناتے ہوئے کہتے ہیں:
Flag Counter