Maktaba Wahhabi

225 - 295
’’۱۳۸۵ھ/۱۹۶۵ء میں جب’’أحسن الکلام’‘دوبارہ شائع کرنے کی نوبت آئی تو اس کے مصنف نے’’خیر الکلام’‘کے اعتراضات و مناقشات کو نہایت نامناسب انداز میں پیش کر کے اپنی بھڑاس نکالنے کی ناکام کوشش کی،بلکہ بعض مقامات کو غلط انداز میں پیش کر کے طنز و تعریض کے نشتر چلانے سے بھی گریز نہ کیا گیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض مقامات کو تو وہ سمجھ نہ پائے،مگر اس کے باوجود ان کے حلقے میں اسے ناقابل تردید و تسخیر باور کیا جانے لگا۔جس کا اظہار اردو میں نہیں،بلکہ عربی کتب میں بھی کیا گیا ہے اور اس مسئلے کے لیے اس کے مطالعہ کی ترغیب دی گئی۔مثلا علامہ علی قاری مرحوم کی شرح مشکات جب ملتان سے ایک حنفی ادارے نے شائع کی تو اس کے حاشیے میں لکھا گیا: ’’وإن شئت التحقیق والبسط في مسئلۃ القراء ۃ خلف الإمام فارجع إلی أحسن الکلام في اللغۃ الأردیۃ للعلامۃ الفہامہ محمد سرفراز خاں الدیوبندي‘‘ ’’اگر تم قراء ۃِ خلف الامام کے مسئلے میں تحقیق اور تفصیل دیکھنا چاہتے ہو تو اردو میں علامہ فہامہ محمد سرفراز خاں صاحب دیوبندی کی تصنیف احسن الکلام کی طرف مراجعت کرو۔‘‘(مرقات: ۲/۳۰۱) حالانکہ پوری کتاب مناظرانہ بلکہ مجادلانہ انداز میں ہے اور اس کے مصنف کے انتہائی متعصب ہونے کی واضح دلیل ہے،جس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ’’أحسن الکلام’‘کی ابتدا میں حضرت مولانا قاری محمد طیب مرحوم لکھتے ہیں کہ خلف الامام فاتحہ پڑھنے والا بھی حدیث پرعمل کرتا ہے اور اہلِ حق میں سے ہے۔ان کے الفاظ یہ ہیں : فاتحہ اور ترکِ فاتحہ تو حدیثی مسلک ہے۔تارکینِ فاتحہ اور قائلینِ فاتحہ عامل
Flag Counter