Maktaba Wahhabi

143 - 335
مدرسے کا معاینہ کرنے والی شخصیتیں طلبا کی تقریری و دعوتی صلاحیتوں کا کھل کر اعتراف کرتی تھیں اور انھیں دل سے دعائیں دیتی تھیں ۔ مولانا عبد القادر قصوری ۱۷؍ محرم ۱۳۴۴ھ کو رحمانیہ میں تشریف لائے، آپ نے اپنے تاثرات میں لکھا: ’’۔۔۔ طلبا نے میرے سامنے تقاریر کیں اور ادیان غیر اسلامی کے مقابلے میں دینِ اسلام کی صداقت کو عقلاً و نقلاً ثابت کیا۔ یقینا طلبا میں ملکہ تحریر و تقریر و تبلیغ کی مدد کرنے کی سعی نہایت قابلِ تحسین تھی۔‘‘[1] شیخ عبد العزیز میمنی نے ۶؍ رجب ۱۳۵۱ھ۔ ۱۹۳۲ء کو جب پہلی بار مدرسے کا دورہ کیا تو خطبۂ استقبالیہ کے جواب میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’میں نے مدرسہ رحمانیہ جب سے قائم ہوا ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا، لیکن مصروفیات کی وجہ سے اس کی زیارت نہ کرسکا اور آج اپنے مخلص دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد کے بلانے پر یہاں حاضر ہوا ہوں ۔ یہاں کے اساتذہ اور طلبا کی محفل میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، ان کی اردو، عربی، پنجابی اور بنگالی زبانوں میں فی البدیہ تقریریں سننے کا موقع ملا ہے۔ آج مجھے بے اختیار ابوالطیب المتنبی کا ایک شعر یاد آگیا ہے: تجمع فیہ کل لسن وأمۃ فما تفھم الحداث إلا التراجم ان میں ہر زبان اور ہر قوم کے لوگ جمع ہیں ، مترجمین کے بغیر ان کی گفتگو نہیں سمجھی جا سکتی۔۔۔۔‘‘[2]
Flag Counter