Maktaba Wahhabi

146 - 335
عیسائیت کو ثابت کرنا ہے جو مشکل کام ہے۔‘‘ [1] ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’ایک دوسرا مناظرہ تناسخ کے موضوع پر تھا، جس میں مَیں نے آریہ سماجیوں کے موقف کا دفاع کیا۔ میرے مقابل میرے ایک ساتھی عبد الغفور مدراسی تھے، جو ناراض ہو کر مجھے میدان میں اکیلا چھوڑ گئے۔ ’’ایک موضوع بابت ذبیح تھا۔ میں نے ثابت کیا کہ وہ اسحاق علیہ السلام تھے، حیاتِ مسیح کے موضوع پر مولانا عبد السلام بستوی نے مناظرے میں حصہ لیا۔ ایک دفعہ مولانا محمد سورتی کی صدارت میں ’’الأئمۃ من قریش‘‘ کے موضوع پر مناظرہ ہوا۔ اسلم جیراج پوری ثالث تھے، انھوں نے فیصلہ دیا کہ موضوع کی مخالفت میں بولنے والوں کے دلائل زیادہ قوی ہیں ، یعنی امامت کے لیے قریشی کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ بات جب مولانا عبدالوہاب ملتانی تک پہنچی تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ ’’جاء الحق وزھق الباطل‘‘ ہمارا دعویٰ رحمانیہ میں ثابت ہوگیا۔ دوسرے موضوعات، جو مجھے یاد ہیں ، مسئلہ خلق قرآن اور حجیت حدیث پر تھے۔ مناظرے کی صدارت کوئی استاذ کیا کرتے تھے۔ مولانا عبیداﷲ مبارک پوری یا مولانا نذیر احمد۔ اگر استاذ موجود نہ ہوتے تو اونچی جماعت کے طلبا میں سے کسی کو صدر بنا دیا جاتا۔ ’’میں چھٹے سال میں تھا، جب کلکتے کی جمعیت تبلیغ نے تین طلبا کو تقریر کے لیے مدعو کیا۔ میرے ساتھ عبدالرؤف جھنڈانگری اور عبداللطیف پنچابی بھی تھے۔ میری تقریر ’’حقوقِ نسواں ‘‘ کے بارے میں تھی۔‘‘ [2] ٭٭٭
Flag Counter