Maktaba Wahhabi

169 - 335
نے ہفتہ واری چھٹی کے ایام کے لیے ایک نظام قائم کیا تھا، جس کے تحت وہ طلبا کو دہلی کے قرب و جوار میں دعوت و تبلیغ اور وعظ وارشاد کے لیے بھیجتے رہتے تھے۔ مولانا نذیر احمد رحمانی مہتمم مدرسہ شیخ عطاء الرحمن کے حالات میں لکھتے ہیں : ’’۔۔۔ اس تعلیمی سلسلے کے علاوہ مبلغین کا بھی انتظام آپ نے کیا۔ مدرسے میں ایک عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہا کہ ہر جمعرات کو مدرسے کے کچھ طلبا دہلی کے دیہاتوں میں بھیج دیے جاتے کہ وہ جمعہ کی نماز کسی دیہات میں جا کر پڑھیں اور پھر خطبے میں یا نماز کے بعد ان کو نہایت صفائی کے ساتھ آسان الفاظ میں اسلام کی صحیح تعلیمات بتائیں ۔ ان کو حکم تھا کہ کسی جگہ نہ کھانا کھائیں اور نہ کسی سے کسی اور قسم کی امداد لیں ۔ ان کو مدرسے ہی سے کھانا دے دیا جاتا تھا۔ آمد و رفت کا کرایہ بھی میاں صاحب ہی دے دیتے تھے۔ اس کا دیہاتوں میں بہت اچھا اثر ہوا۔ لوگ ان طلبا کو بے غرض دیکھ کر دلچسپی سے ان کی باتیں سنتے اور توجہ کرتے۔ اب بھی سندھ جیسے پیر پرست علاقے میں ایک پرجوش باہمت نجدی عالم دورہ کر رہے ہیں اور برابر ان کو مدرسے سے امداد پہنچ رہی ہے۔ انھوں نے سندھ میں بہت اچھا کام کیا ہے۔ ایک اچھی خاصی جماعت موحدین کی پیدا کرلی ہے۔ اﷲ ان کی مدد کرے اور میاں صاحب مرحوم کو اس کا ثواب پہنچاتا رہے۔ آمین۔‘‘[1] غالباً اسی طرح چھٹی کے ایام میں یا مدرسے کی طرف سے مخصوص اجازت پر بعض اساتذہ بھی کبھی کبھی دعوتی جلسوں میں شرکت کر لیا کرتے تھے، چنانچہ مولانا محمد امین اثری کے نام اپنے ایک مکتوب میں شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’......ناظم صاحب نورِ الٰہی اور حاجی عبدالرحمن و ماسٹر عبد اﷲ صاحب اور
Flag Counter