Maktaba Wahhabi

180 - 335
قلزمِ پُر ظلام میں گم گشتۂ شعور تھا ہند کا مسلماں بہت داور حق سے دور تھا پھوٹی جوتجھ سے یک بیک فانوس حق کی اک کرن چھوڑ کے خاکبازیاں ہوگیا دیں پہ گامزن فیض کو ترے کیا کہوں خوب ہے دیں پروری سایہ فگن رہے مدام دورۂ چرخ چیمبری سچ پوچھ مجھ سے گر مجازؔ کہہ دوں میں صاف بالیقیں بدعت دیں بھٹک سکے جس جا یہ وہ جگہ نہیں [1] مولانا محمد خلیل صاحب ایمن بستوی نے بھی ایک طویل نظم لکھی ہے، جس کے آخر کے چند اشعار اس طرح ہیں : تری ہر سانس کی گرمی سے باطل یوں پگھلتا ہے ختم ہو دیکھ کر دجال جیسے ابن مریم کو ترے روشن ادلہ کی مخالف تاب کیا لائے بھلا کیا تاب ضوء شمس کی قطرات شبنم کو ترے اوراق ہیں رنگیں ز لون سنت و قرآن ترا ہر جام شرمندہ کن پیمانۂ جم کو مبارکباد کیا ہم دیں تجھے اس شان و عزت پر نہیں حاصل بایں مقدار یارائے سخن ہم کو تری تعریف میں ایمنؔ نہ کیوں رطب اللساں ہوتا راہ حق و صداقت جب تو دکھلاتا ہے عالم کو [2]
Flag Counter