Maktaba Wahhabi

187 - 335
یہ درس گاہ ایک بین الاقوامی ادارے کی حیثیت رکھتی تھی۔ مولانذیر احمد رحمانی نومبر ۱۹۳۸ء کے ’’محدث‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’دار الحدیث رحمانیہ کی شہرت صرف ہندوستان ہی میں نہیں ، بلکہ بیرونِ ہند میں بھی اس کا غلغلہ بلند ہے۔ چنانچہ اس وقت پنجاب، بنگال، یوپی وغیرہ کے علاوہ مدرسے میں برما، جاوا، سماترا، تبت، نجد (عرب) تک کے طلبا موجود ہیں ۔ اس سال ربیع الاول میں نجدی طالب علم کے والد (جو ایک مشہور تاجر ہیں اور اپنے تجارتی سلسلے میں دور دور کے ملکوں کی سیاحت کرتے ہیں ) اپنے بچے سے ملنے مدرسے میں تشریف لائے اور کئی روز تک قیام کرنے کے بعد انھوں نے مدرسے کے حالات کا اچھی طرح معاینہ کیا۔۔۔ ۔‘‘ [1] ایک دوسرے شمارے میں اسی تعلق سے مولانا رحمانی لکھتے ہیں : ’’بحمد اﷲ اس سال طلبا کی تعداد پچھلے سالوں سے زیادہ ہے۔ پنجاب، بنگال، یوپی، دکن، بہار، اڑیسہ، جزیرہ حبشان، مدراس، آسام، برما؛ ان تمام ممالک کے لڑکے اس سال مدرسے میں داخل ہیں ۔‘‘ [2] صاحب تحفۃ الاحوذی کے تذکرہ نگار مولانا ابو الفضل عبد السمیع مبارک پوری نے لکھا ہے کہ رحمانیہ کے طلبا میں ہندوستانیوں کے علاوہ عرب، افغانستان، کاشغر، بخاری، سماترا اور دیگر اسلامی ممالک کے طلبا بھی شامل تھے۔[3] ’’اخبار محمدی‘‘ دہلی میں شائع شدہ ’’نتیجہ امتحان مدرسہ رحمانیہ دہلی‘‘کے عنوان
Flag Counter