Maktaba Wahhabi

224 - 335
کے بعد سے مغرب تک کا وقت مستثنیٰ ہے۔‘‘ ادارے کے اس قانون کے مطابق ہر طالب علم کو مغرب سے قبل مدرسے میں واپس آنا اور مغرب کی نماز مدرسے کی مسجد میں ادا کرنا ضروری تھا۔ دیگر قوانین کی طرح اس قانون پر بھی سختی سے عمل ہوتا تھا اور کسی بھی طالب علم کی جانب سے اس کی خلاف ورزی پر سخت گرفت ہوتی تھی اور عام طور سے مدرسے سے اخراج کا سبب بنتی تھی۔ بطورِ مثال مولانا عبد الحکیم صاحب مجاز اعظمی رحمہ اللہ کا واقعہ ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مولانا بیان کرتے تھے کہ مدرسہ عالیہ فتح پوری میں زیرِ تعلیم مبارک پور کے ایک طالب علم دوست سے ملاقات کی غرض سے میں اکثر بعد نمازِ عصر وہاں پہنچ جایا کرتا تھا اور مغرب سے قبل رحمانیہ واپس آجاتا۔ ایک روز کسی مشغولیت کی وجہ سے وقت کا اندازہ نہ ہو سکا اور وقتِ مقرر پر وہاں پہنچنے کا امکان باقی نہ رہ گیا تھا۔ مجبوراً عالیہ ہی میں مغرب کی نماز ادا کی اور مدرسے کا راستہ لیا۔ یہاں پہنچا تو مدرسے کا گیٹ بند ہوچکا تھا۔ دستک دینے پر دربان نے گیٹ کھولا اور نگراں کو میرے تاخیر سے پہنچنے کی خبر دی۔ قانون کے مطابق نگران صاحب نے میرا نام وغیرہ درج کیا اور یہ حکم سنایا کہ اب مدرسے کے قانون کے مطابق تمھیں یہاں رہنے کی اجازت نہیں ہے، اپنا سامان اٹھاؤ اور روانہ ہوجاؤ۔ مولانا مجاز فرماتے ہیں کہ خوف و اُداسی کے ساتھ پوری رات جاگ کر گزاری اور طرح طرح کے اندیشے میں گھرا رہا۔ آخر دل میں یہ خیال آیا کہ مولانا نذیر احمد صاحب املوی میری محنت اور تعلیمی شغف کی وجہ سے خاص شفقت فرماتے ہیں ، ان کے سامنے صورتِ حال بیان کروں ، شاید وہ کوئی سبیل نکالیں ، چنانچہ دوسرے دن علی الصباح آپ کے سامنے پورا واقعہ بیان کیا۔ آپ نے اسے سن کر افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا کہ تمھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور ہر حال میں ادارے کے قانون کی پابندی
Flag Counter