Maktaba Wahhabi

249 - 335
آپ کے شاگرد مولانا عبد الغفار حسن رحمانی دار الحدیث رحمانیہ میں آپ کی تدریس سے متعلق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’رحمانیہ میں اس وقت کے ہمارے اساتذہ میں ایک مولانا الشیخ احمد اﷲ الدہلوی تھے۔ یہ شیخ المحدثین السید نذیر حسین دہلوی کے شاگرد رشید تھے، ان سے میں نے صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داود، جامع ترمذی کی پہلی جلد پڑھی اور علومِ حدیث میں شرح نخبۃ الفکر اور علمِ وراثت میں سراجی پڑھی۔ شیخ احمد اﷲ دہلوی بڑے جید عالم دین اور بلند پائے کا اخلاق و کردار رکھتے تھے۔ طلبا کے ساتھ بڑی شفقت اور اپنائیت کے ساتھ پیش آتے۔ اکثر اپنے شاگردوں اور دیگر اساتذہ کو علمِ حدیث اور سنت کے ساتھ لگاؤ کی تلقین کیا کرتے تھے۔‘‘[1] ایک دوسرے موقع پر آپ لکھتے ہیں : ’’مولانا موصوف کی ساری عمر درسِ حدیث میں گزری۔ پڑھتے پڑھاتے فتح الباری کے مطالب ان کو ازبر ہوگئے تھے۔ جب کسی مسئلے پر درس میں وہ تقریر فرماتے تو معلوم ہوتا کہ ایک علم کا سمندر بہہ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ نہایت متواضع اور منکسر المزاج تھے۔ طلبا کے لیے صحیح معنی میں مربی و مشفق استاذ تھے۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کبھی غصے سے ان کے چہرے پر بل آیا ہو۔ اہتمامِ سنت میں نمایاں طور پر آگے بڑھے ہوئے تھے۔ حقیقتاً وہ صحیح معنی میں سلف صالحین کا نمونہ تھے، اس میں شک نہیں کہ وہ تدریس کے ماہر تھے۔۔۔۔‘‘[2]
Flag Counter