Maktaba Wahhabi

264 - 335
پر سکہ جما لیا ہے، یقینا اس جامع عظیم درسگاہ کے لیے ایسے ہی لائق وفائق شیخ الحدیث کی ضرورت بھی تھی۔‘‘[1] شیخ صاحب کے تلامذہ کے علاوہ دوسرے قدردانوں نے بھی آپ کے طریقۂ درس کو سراہا ہے، چنانچہ مولانا ابویحییٰ امام خاں نوشہروی لکھتے ہیں : ’’...... مولوی عبید اﷲ صاحب (مدرس دار الحدیث رحمانیہ دہلی ) جن کے تفقہ فی الحدیث کا اس نوعمری میں یہ عالم ہے کہ جب درسِ حدیث پر بیٹھتے ہیں تو سند و متن دونوں کے عقدے کھول کر رکھ دیتے ہیں ، یعنی کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا اور فقاہتِ حدیث کے راز ہائے سربستہ آشکارا کرتے جاتے ہیں ......‘‘[2] مولانا سید ابو الحسن علی ندوی شیخ صاحب کی وفات پر اپنے تعزیتی خطاب میں لکھتے ہیں : ’’جب مولانا دہلی میں تدریسِ حدیث کے مبارک مشغلے میں مشغول تھے تو درس میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، اس درس کو سن کر بہت مسرت ہوئی اور مرحوم کی فضیلت علمی و وسعتِ نظر اور فن پر عبور کا اندازہ ہوا۔ وہ ہمارے ساتھ ایک مرتبہ نظام الدین کے تبلیغی مرکز میں بھی تشریف لے گئے اور حضرت مولانا محمد الیاس صاحب سے بھی ملاقات کی۔‘‘[3] اﷲ رب العزت شیخ صاحب کو غریقِ رحمت کرے اور درس وتدریس سے وابستہ حضرات کے لیے مذکورہ بالا حقائق کو درسِ عبرت بنائے۔ آمین
Flag Counter