Maktaba Wahhabi

268 - 335
کے ذمے داران نے آپ کی بے پناہ صلاحیتوں اور علم و عمل دونوں میں آپ کے تفرد و امتیاز کو دیکھ کر مدرس مقرر کیا، مگر افسوس آپ زیادہ دن یہاں نہ رہ سکے اور مستعفی ہوکر چلے گئے۔ آپ کے ایک تذکرہ نگار مولانا شاکر گیاوی لکھتے ہیں : ’’دہلی مدرسہ رحمانیہ میں علی گڑھ یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ سے دل برداشتہ ہو کر مولانا محمد سورتی رحمہ اللہ نے مدرسی اختیار فرمائی ، نہایت طلیق اور طلبا پر شفیق بزرگ تھے اور انتہائی غیور بھی۔ ان کی خدمت میں خواجہ عبد الحی فاروقی، حافظ اسلم جیراج پوری، مولانا قصوری وغیرہم اکثر استفادہ کے لیے تشریف لاتے تھے۔۔۔۔‘‘[1] مولانا عبد الغفار حسن رحمانی فرماتے ہیں : ’’مدرسہ رحمانیہ میں میرے دوسرے استاذ مشہور ادیب اور جید عالم دین اور عربی زبان کے ماہر الشیخ محمد السورتی تھے۔ عربی ادب کی مشہور کتاب ’’ازہار العرب‘‘ ان ہی کی تالیف کردہ ہے، ان کے پاس ہم نے جامع الترمذی کی دوسری جلد اور صحیح مسلم کا کچھ حصہ اور شرح نخبۃ الفکر کا کچھ حصہ اور عربی زبان و ادب کی بعض کتابیں پڑھیں ، مگر یہ چھے ماہ بعد ہی ناظمِ مدرسہ سے اختلافات کی وجہ سے دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔‘‘[2] ایک دوسرے مقام پر سورتی صاحب کے بارے میں مولانا مزید تفصیلات یوں بیان کرتے ہیں : ’’مولانا موصوف رحمانیہ میں آنے سے پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دینی علوم کے استاذ تھے۔ حافظہ بڑا قوی تھا۔ عربی ادب کا ذوق بے پایاں تھا۔
Flag Counter