Maktaba Wahhabi

316 - 335
5۔ والد محترم مولانا محمد صاحب اعظمی لکھتے ہیں : ’’صد افسوس جماعتِ اہلِ حدیث کا یہ عظیم ادارہ ۱۹۴۷ء میں تقسیمِ ہند کے فساد کی نذر ہوگیا اور اس وقت سے جامعہ ملیہ کی تحویل میں شفیق میموریل ہائی اسکول میں تبدیل ہوگیا۔‘‘[1] 6۔ مولانا عبدالحمید صاحب رحمانی فرماتے ہیں : ’’اسی کش مکش میں ملک تقسیم ہو گیا۔ دار الحدیث رحمانیہ کے بانی پاکستان چلے گئے، اس کا عظیم الشان کتب خانہ جامعہ ملیہ کو سونپ دیا گیا۔ کشمیری گیٹ پر چند دکانیں رہ گئیں ، جو دار الحدیث رحمانیہ پر وقف تھیں ، بعد میں یہی دکانیں دارالحدیث رحمانیہ کی عمارت کو کسٹوڈین سے بچانے کا سبب بنیں ۔ دار الحدیث کا کوئی وقف نامہ نہیں تھا، اس کی حیثیت بانیان کی وراثت کی تھی، اس لیے اسے کسٹوڈین نے قبضے میں لے لیا تھا، لیکن انہی دکانوں کا وقف نامہ اسے کسٹوڈین سے نجات دلانے میں معاون ثابت ہوا، کیوں کہ موقوف علیہ قانونی طور پر وقف کے حکم میں ہوتا ہے، مقدمہ جیتنے اور کسٹوڈین سے آزاد کرانے کے بعد بھی دہلی کی جماعتِ اہلِ حدیث کی غفلت سے اس میں شفیق میموریل اسکول بن گیا اور جماعت اپنی یونیورسٹی کی عمارت سے محروم ہوگئی۔‘‘ [2] 7۔ یادگار مجلہ اہلِ حدیث میں ہے: ’’.....مدرسے کی عالی شان عمارت اور مسجد آج بھی باڑا ہندو راؤ میں پہلے ہی
Flag Counter