Maktaba Wahhabi

319 - 335
کی خیر و عافیت دریافت کرنے کے بعد میں نے ان سے اپنی دیرینہ خواہش کا اعادہ کیا، وہ اس کے لیے ہمہ تن مستعد نظر آئے اور خوشی اور دلچسپی کے ساتھ صبح چلنے کا پروگرام بنایا اور علاقے کی دوسری مساجد و مدارس کے بارے میں بھی اپنی معلومات پیش کیں ۔ مسجد پل بنگش کے بارے میں آپ نے بتایا کہ اسی مسجد میں مدرسہ سعیدیہ جاری تھا، جو مولانا ابو سعید شرف الدین رحمہ اللہ کی طرف نسبت رکھتا تھا، مولانا اس مسجد میں درس و تدریس کا شغل فرماتے تھے، آپ کو علامہ سید نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا شمس الحق ڈیانوی اور شیخ حسین عرب یمنی سے شرف تلمذ حاصل تھا۔[1] بہرحال جمعہ کی صبح تقریباً نو بجے مولوی عبد الحق صاحب کی مصاحبت میں ہم کوچہ یار کے دیدار کے لیے نکلے۔ مسجد سے متصل مین روڈ پار کرکے مشرق کی طرف گلیوں کے راستے پہلے ہم لوگ مدرسہ زبیدیہ پہنچے۔ یہ مدرسہ ایک قدیم مگر وسیع اور صاف ستھری مسجد اور اس سے ملحقہ کمروں پر مشتمل تھا۔ وہاں پر کچھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی نہاتے دھوتے نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ یہاں اب حفظِ قرآن کی تعلیم ہوتی ہے، مدرسہ زبیدیہ کا نام شیخ الحدیث علامہ احمد اﷲ قرشی پرتاپ گڈھی رحمہ اللہ کے تذکرے کے ساتھ بار بار پڑھتا اور سنتا چلا آیا تھا۔ علامہ موصوف میاں صاحب کے شاگرد تھے اور شیخ الحدیث مولانا عبید اﷲ رحمانی اور مولانا نذیر احمد املوی رحمانی وغیرہم کے استاد تھے۔ ایک عرصے تک دار الحدیث رحمانیہ کی مسند شیخ الحدیث کو رونق بخشی، اس سے پہلے آپ مدرسہ علی جان میں درس دیتے تھے اور ۱۹۳۸ء میں رحمانیہ سے مستعفی ہو کر زبیدیہ سے منسلک ہوگئے۔ یہاں سے نکلنے کے بعد ہم لوگ محلہ کشن گنج کی اہلِ حدیث مسجد میں پہنچے۔ یہ حاتمِ جماعت حافظ حمید اﷲ دہلوی کا محلہ ہے، موصوف اسی محلے میں مقیم تھے۔ اب ان
Flag Counter