Maktaba Wahhabi

76 - 335
شکرانہ یہ ہے کہ ایک مدرسہ کھول دیں ، چنانچہ یہ مشورہ ان لوگوں کو بہت پسند آیا اور عبدالرحمن صاحب کے نام کی مناسبت سے مدرسہ رحمانیہ کھول دیا۔[1] مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہ اللہ اس واقعہ کو اور کچھ دوسرے حالات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’ان تفصیلات کو پڑھ کر ہمیں حسبِ ذیل معلومات حاصل ہوئیں : اول یہ کہ ’’مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ‘‘ کو مولانا عبد العزیز صاحب رحیم آبادی کے نیک مشوروں سے قائم کیا گیا۔ کہاں شیخ عبد الرحمن صاحب اور عطاء الرحمن صاحب اپنے گم شدہ بھانجے کے مل جانے پر فرحت و شکرانے کے طور پر کھلانے پلانے پر ہزارہا ہزار روپیہ صَرف کرنا چاہتے تھے، لیکن مولانا عبد العزیز صاحب رحیم آبادی کے حقیقی مشورے کو ان دونوں بھائیوں نے قبول کر لیا اور اس رقم کو کارآمد اور نفع بخش یادگار یعنی مدرسے کا بنانا منظور کر لیا اور پھر مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ عالمِ وجود میں آگیا تو دراصل مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ کی صحیح یادگار ہے اور ان ہی کے نیک مشورے کو ان حضرات نے سر آنکھوں پر رکھ کر مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ کا افتتاح و آغاز کیا۔ وہ حضرات آپ کی باتوں کی قدر وقیمت کو سمجھتے تھے۔۔۔۔‘‘[2] ایک دوسری تحریر جناب محمد فاروق اعظمی (جلگاؤں ) کی بھی ملاحظہ ہو، جو مذکورہ بالا پسِ منظر کی بڑی حد تک تائید کرتی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں :
Flag Counter