Maktaba Wahhabi

80 - 335
’’جمعیت مجاہدین کی یہ کوشش جب کامیاب نہ ہوئی تو انھوں نے ایک دوسرا پروگرام وضع کیا اور اس میں دار العلوم دیوبند کے مشایخ کا اشتراک وتعاون چاہا، چنانچہ اس مہم کے لیے جمعیت عالیہ مجاہدین نے حضرت صوفی محمد عبد اﷲ کو منتخب کیا۔ صوفی صاحب کی جوانی کی دوپہر اس وقت ڈھلنا شروع ہوگئی تھی، چنانچہ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ میں مرکز مجاہدین کا پیغام لے کر مدرسہ قاسمیہ عرف دار العلوم دیوبند ضلع سہارن پور، یوپی میں پہنچا، پیغام دار العلوم کے شیخ الحدیث علامہ انور شاہ کشمیری کی خدمت میں پہنچانا تھا۔ ’’علامہ انور شاہ صاحب اس وقت ترمذی شریف پڑھا رہے تھے۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ علامہ صاحب موصوف ترمذی کی ایک ایک روایت کا رد فقہ کے دلائل سے بیان کر رہے تھے۔ مجھ سے نہ رہا گیا تو میں نے کہا: حضرت آپ ترمذی پڑھا رہے ہیں یا اس کی تردید فرما رہے ہیں ؟ ’’علامہ انور شاہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم ترمذی پڑھے ہوئے ہو؟ میں نے کہا: نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ جب تم پڑھے ہوئے نہیں ہو تو تمھیں کیا معلوم کہ پڑھا رہا ہوں یا اس کی تردید کر رہا ہوں ؟ میں نے کہا: جو آدمی دینی مسائل کا ادنی شعور بھی رکھتا ہے، وہ ایک لمحے میں کتاب کی پڑھائی اور اس کی تردید کا فرق محسوس کر لیتا ہے۔ ’’اتنی سی بات تھی کہ علامہ صاحب کے حلقۂ تلامذہ میں شامل پٹھان طالب علم مکے گھونسے اور چاقو لے کر میری طرف لپکے، لیکن میں نے کہا کہ میں جماعتِ مجاہدین کا پیغام علامہ صاحب کے نام لے کر آیا ہوں ، مجھے اگر تم سے کسی قسم کا گزند پہنچا تو اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہو، کیونکہ میں
Flag Counter