Maktaba Wahhabi

351 - 418
(( إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ)) ’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو ماسوا تین اعمال کے سب اعمال انسان سے منقطع ہو جاتے ہیں: صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا رہے، یا نیک اولاد جو اس کے حق میں دعا کرے۔‘‘[1] امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’علم کے شرف و فضل اور اس کے ثمر کی یہ حدیث سب سے بڑی دلیل ہے کہ آدمی کے فوت ہو جانے کے بعد بھی جب تک اس کے علم سے استفادہ کیا جاتا رہے گا اس کا ثواب اس آدمی کو پہنچتا رہے گا۔ گویا وہ شخص زندہ ہے اور ذکر و ثنا والی زندگی نہ ہونے کے باوجود اس کے اعمال منقطع نہیں ہوئے۔ جب لوگوں کے اعمال کا ثواب ان سے منقطع ہو جاتا ہے اس وقت اس آدمی کے لیے اجر کا جاری ہونا دراصل اس کے لیے دوسری نئی زندگی کا حکم رکھتا ہے۔‘‘[2] آدمی جس موضوع کو اختیار کرتا ہے اس کے اعتبار سے علم کے درجات اور منازل میں فرق ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سب سے زیادہ شرف و منزلت والا اور جلیل القدر علم اللہ تعالیٰ کی کتاب کا علم ہے، لہٰذا جو شخص قرآن کریم کی خود تعلیم حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے وہ اس شخص سے زیادہ شرف و منزلت والا ہے جو قرآن کے علاوہ کوئی اور علم حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔ بلاشبہ اس امت کے سلف صالحین رضی اللہ عنہم قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کے بے حد مشتاق رہتے تھے۔ ان کے اس اشتیاق کی پہچان ان بہترین اور چنیدہ افراد کے طرز عمل سے ہوتی
Flag Counter