Maktaba Wahhabi

81 - 418
ابہام کے بغیر اس کے وہ مطالب آسانی سے سمجھ لیتا ہے جو متکلم کی مراد ہیں، جیسے عام طورپر کہا جاتا ہے کہ وہ کانوں میں بے کھٹکے اوربغیر اجازت داخل ہوجاتا ہے۔ یہ آسانی الفاظ میں بھی پائی جاتی ہے اور معانی میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ الفاظ کی آسانی یہ ہے کہ وہ تراکیب و کلمات کی فصاحت کے اعلیٰ درجوں میں ہیں، یعنی کلام کی فصاحت اور الفاظ کا دروبست ایسا رواں ہے کہ زبانی طورپر انھیں یاد کرنا کوئی مشکل نہیں۔ مفہوم و معانی کی آسانی یہ ہے کہ وہ واضح بھی ہیں اور وافر بھی اور قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے اس میں تدبر کرنے والا جب بھی دوبارہ غورکرے تو معانی کی نت نئی گر ہیں اس پر کھلتی چلی جائیں۔[1] امام رازی رحمہ اللہ نے ﴿وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ﴾ کی تفسیر میں قرآن کریم کے آسان ہونے کی کئی توجیہات بیان کی ہیں جو حسب ذیل ہیں: ٭ ہم نے قرآن حفظ کرنا آسان کردیا ہے، چنانچہ انسانی تاریخ کا یہ فقید المثال واقعہ ہے کہ قرآن کریم کے سوا، اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کسی اور کتاب کو حفظ نہیں کیا جا سکا(قرآن کریم کے کروڑوں حفاظ ہیں لیکن کسی اور کتاب کا کہیں کوئی حافظ نہیں۔) ٭ ہم نے قرآن سے نصیحت پذیری کا عمل آسان کردیاہے کیونکہ اس میں ہر قسم کی حکمت و دانائی جمع کردی گئی ہے۔ ٭ ہم نے اس میں یہ خلقی وصف رکھا ہے کہ یہ دلوں کو متاثر کرتا ہے اوراس کا سننا باعث فرحت و انبساط ہے۔ جو اسے نہیں سمجھتا وہ بھی کچھ نہ کچھ مطلب پا لیتا ہے، اسے سمجھنے اور سننے سے کسی پر اکتاہٹ طاری نہیں ہوتی اور وہ یہ نہیں کہتا کہ مجھے اس کا علم ہے، اس لیے میں اسے نہیں سنتا، بلکہ ہر لمحے اس کے علم و سرور میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔[2]
Flag Counter