Maktaba Wahhabi

112 - 670
جواب:بعض اہل علم نے حائضہ عورت کو غلاف کے ساتھ قرآن کو چھونے کی اجازت دی ہے ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور شوافع کا ایک طبقہ بھی ان میں سے ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر ان علماء میں ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے کیا اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے مجموع میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کیا ہے ،جبکہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ وہ عورت کے لیے غلاف کے ساتھ اور اس کے بغیر قرآن کے چھونے کو جائز قراردیتے ہیں لیکن ان اہل علم نے جنابت کی حالت میں غلاف کے ساتھ بھی قرآن مجید کو چھونے سے منع کیا ہے کیونکہ جنبی آدمی تو جنابت کے ازالے کی طاقت رکھتے ہیں جبکہ حائضہ عورت اس کے ازالے کی طاقت نہیں رکھتی ۔جب ایک عورت میں حیض اور جنابت جمع ہو جائیں تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور ان شوافع کے نزدیک وہ غسل جنابت کیے بغیر غلاف کے ساتھ بھی قرآن کو نہیں چھوسکتی ،اس کے لیے حیض کی حالت میں جنابت کا غسل کرنا جائز ہے اور اس غسل سے اس کی جنابت کا ازالہ ہو جائے گا۔ ویسے اس پر غسل کرنا واجب نہیں ہے، سوائے اس کے کہ وہ حیض کی حالت میں قرآن کی تلاوت کا ارادہ رکھتی ہو تو اس پر جنابت کے ازالے کی نیت سے غسل کرنا واجب ہے۔ اگر اس نے ازالہ جنابت کی نیت سے غسل نہ کیا حتی کہ اس کا حیض بند ہو گیا تو اس پر صرف ایک ہی غسل واجب ہے۔ اور اہل علم کے ایک گروہ کے نزدیک دو غسل واجب ہیں۔ ایک حیض کا اور دوسرا جنابت کا۔ اور اگر وہ جمعہ کے دن حیض سے فارغ ہوئی اور وہ نماز جمعہ کے لیے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔تو اس پر غسل جمعہ کے وجوب کے موقف کے مطابق تین غسل کرنے لازمی ہوں گے: (1)غسل حیض ۔ (2)غسل جنابت ۔(3)غسل جمعہ۔ بخاری ومسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے: " غُسْلُ يَوْم الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ، والسواك ، وان يمس من الطيب ما یقدر عليه. " [1]
Flag Counter