Maktaba Wahhabi

323 - 670
رابعاً:گناہ گار ہونا۔ خامساً:کفارے کا واجب ہونا جو کہ ایک گردن آزاد کرانا ہے۔ لیکن جب وہ گردن آزادانہ کراسکے تو دو مہینوں کے مسلسل روزے رکھنا ،اور اگر وہ اس کی بھی طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاناہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ ) محرم کے بغیر کیے ہوئے عمرے کا حکم: سوال:ایک عورت نے اپنے خاوند کے ساتھ احرام باندھا اس حال میں کہ وہ حائضہ تھی جب وہ پاک ہوئی تو اس نے اپنے شوہر کے بغیر عمرہ کیا۔عمرہ مکمل کرنے کے بعد اس کو پھر خون جاری ہوگیا تو کیا وہ اپنا عمرہ دھرائے گی؟اور ایسے ہی اگر وہ حیض کے دوران حرم کے صحن میں آئے تو کیا وہ اس کی وجہ سے گناہگار ہوگی؟ جواب:ہم کہتے ہیں کہ جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ عورت مکہ میں اپنے محرم کے ساتھ آئی اور اس نے حیض کی حالت میں میقات سے احرام باندھا،اور اس کا حالت حیض میں میقات سے احرام باندھنا صحیح ہے کیونکہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے جب ذوالحلیفہ مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کرتے ہوئے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !بلاشبہ مجھے نفاس آگیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اغْسِلِي وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي " [1] "توغسل کر اور ایک کپڑے کا لنگوٹ باندھ لے اور پھر احرام پہن لے۔" لہذا اس کا احرام صحیح ہے اور جب وہ مکہ آئی تو وہ پاک ہوگئی اور اس نے جو شوہر کے بغیر عمرہ کیا تھا اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ شہر کے اندر ہی ہے لیکن اس کو خون کا لوٹ آنا اس کی طہارت کو،جو اس نے دیکھی تھی ،مشکوک بنادیتاہے۔ پس ہم اس کو کہتے ہیں:جب تو نے یقیناًطہارت دیکھی تو تمہارا عمرہ درست ہوگیا لیکن اگرتمھیں اپنی اس طہارت میں شک ہے تو، تو عمرہ کو دھرالے لیکن نئے سرے سے عمرہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ میقات پر جائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ
Flag Counter