Maktaba Wahhabi

424 - 670
سے بیوی کے فروع خاوند پرحرام ٹھہرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان: "وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ" (النساء:23) "اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشتوں سے ہیں۔" خاوند کے اصول کو بیوی پر حرام کرتاہے۔ اور جائز ہے کہ ایک شخص کسی عورت سے شادی کرے اور اس شخص کا باپ اس عورت کی بیٹی سے شادی کرے کیونکہ بیوی کے فروع خاوند پر حرام ہیں ،اس کے رشتہ داروں پر حرام نہیں ہیں،نیز یہ جائز ہے کہ ایک آدمی کسی عورت سے شادی کرے اور اس آدمی کاباپ اس عورت کی ماں سے شادی کرے۔ آدمی کے لیے اپنی محرم عورتوں کے علاوہ کسی سے مصافحہ کرناجائز نہیں ہے،نہ بغیر پردے کے اور نہ ہی پردے کے ساتھ۔بہت سے لوگ محض قرابت داری کی وجہ سے اگرچہ عورت اس کے محرم رشتوں میں سے نہ ہو،بلاجھجک مصافحہ کرلیتے ہیں یہ جائز نہیں ہے اور محارم وہ عورتیں ہیں جو نسب یاکسی مباح سبب کی وجہ سے دائمی طور پر حرام ہوتی ہیں۔ سوال:اسی مسئلے کی مناسبت سے اگر کوئی کہے :کیا یہ ممکن ہے کہ رضاعت کے ذریعے ابوت(باپ کا رشتہ) تو ہو مگر امومت(ماں کارشتہ) ثابت نہ ہو یا امومت ثابت ہو اور ابوت ثابت نہ ہو؟ جواب:یہ ممکن ہے کہ بچے کا رضاعی باپ ہو اوررضاعی ماں نہ ہو۔یہ ایسے آدمی میں ہے جس کی دو بیویاں ہوں،ان دونوں نے بچے کو تین دفعہ دودھ پلایا ہوتو وہ آدمی اس بچے کا رضاعی باپ تو بن جائے گا اور وہ دونوں عورتیں اس کی رضاعی مائیں نہیں ہوں گی۔ ایسے ہی اس بات کا بھی امکان ہے کہ بچے کی رضاعی ماں ہو اور اس کا رضاعی باپ نہ ہو۔اس کی مثال یوں ہے کہ ایک عورت نے بچے کو دو مرتبہ دودھ پلایا اور وہ ایک آدمی کی بیوی ہے، پھر وہ اس خاوند سے جداہوگئی اور ایک اور آدمی سے شادی کرلی اور بچے کو تین مرتبہ دودھ پلایا ،اس حال میں کہ وہ اب کسی دوسرے شخص کی بیوی ہے تو اس طرح
Flag Counter