Maktaba Wahhabi

444 - 670
جب عورت کے اندر ایسا عیب ہو جس سے وہ اور اس کا ولی ناواقف ہو: سوال:جب عورت میں کوئی عیب ہو جس سے وہ بذات خود اور اس کا ولی ناواقف ہوتو کیا خاوند ان میں سے کسی ایک سے اپنا نقصان پورا کرنے کا حق رکھتا ہے؟ جواب:فقہاء نے مرد کے ان دونوں سے نقصان کی تلافی کے سلسلہ میں رجوع نہ کرنے میں ان کے شرعی حکم سے ناواقفیت کی شرط نہیں لگائی ،انھوں نے تو صرف عیب سے ناواقف ہونے کی شرط لگائی ہے، لہٰذا جب ولی کو عیب کا علم نہ ہو تو عورت سے رجوع کرے گا، پس اگر عورت بھی اپنے عیب سے جاہل ہو جس کا امکان ہے اور بلکہ دونوں کے سچا ہونے کا امکان ہے تو اس صورت میں وہ کسی سے بھی اپنے نقصان کی تلافی کا حق دار نہیں ہے کیونکہ مہر تو دخول کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے، لہٰذا وہ مہر کے معاملے میں کسی دھوکا دینے والے کو تلاش کر کے مہر طلب نہیں کرے لیکن اگر لڑکی اور اس کے ولی میں سے کسی کو عیب کا علم تھا مگر وہ شرعی حکم سے ناواقف تھا تو مہرکی واپسی اور تاوان کی ادائیگی کے لیے حکم کی عدم واقفیت اس کے اندر عذر نہ ہوگی کیونکہ بہر حال دھوکہ پایا گیا۔ (السعدی) عورت نے شوہر میں کسی صفت کی شرط لگائی مگر شوہر میں وہ صفت کم تر ظاہر ہوئی: سوال: جب بیوی نے شوہر کے متعلق ایک وصف کی شرط لگائی تو وہ وصف کم تر نکلا، کیا عورت اس خاوند کے پاس رہے گی؟ جواب:نکاح کے متعلق علماء و فقہاء کا قول یہ ہے کہ اگر اس نے اپنے خاوند کے متعلق ایک صفت کی شرط لگائی تو اس میں وہ صفت شرط سے کم نکلی ،عورت کو فسخ نکاح کا حق نہ ہو گا اور بھی کہا گیا ہے کہ مقصودی شرط کے نہ پائے جانے کی وجہ سے اس کو فسخ نکاح کا حق ہو گا اور یہی بات درست ہے اور شرطوں میں سے پوری کی جانے کی مستحق شرط وہ ہے جس کے ساتھ شرمگاہوں کو حلال کیا جاتا ہے اور یہی قول زیادہ درست ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری روایت ہے: وہ عورت جو اپنی آزادی اور ملکیت فسخ سے
Flag Counter