Maktaba Wahhabi

662 - 670
پہنچ جائے تو ناجائز ہوگا۔ 2۔دوسری صورت کہ اسے گرانے سے ضائع کرنا مقصود نہ ہو بلکہ مدت حمل پوری ہونے اور ولادت کے قریب ہونے کے وقت اس کے اسقاط واخراج کی ایک کوشش ہوتو یہ اس شرط سے جائز ہوگا کہ والدہ اور بچے کو کوئی نقصان نہ ہو اور نہ ہی معاملہ آپریشن کا محتاج ہو،اگر آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے تو اس کی چار حالتیں ہیں: پہلی حالت:والدہ اور بچہ زندہ ہوتو بلاضرورت آ پریشن ناجائز ہوگا،مثلاً:اس کی ولادت مشکل ہو جس کی بنا پر آپریشن کی نوبت پیش آئے،اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم بندے کے پاس امانت ہے،اس میں کوئی ایسا تصرف جائز نہیں جس سے جان کو خطرہ ہومگر کسی بڑی مصلحت کے باعث اور اس لیے بھی کہ بسا اوقات انسان گمان کرتا ہے کہ آپریشن میں نقصان نہیں ہے جبکہ نقصان ہوجاتاہے۔ دوسری حالت:ماں اور حمل مردہ ہوں تو اسے نکالنے کا فائدہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کے اخراج کے لیے آپریشن کرنا جائز نہیں ہے۔ تیسری حالت:والدہ زندہ اور حمل مردہ ہوتو اس کے اخراج کے لیے آپریشن جائز ہوگا مگر یہ کہ والدہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو،کیونکہ ظاہر یہی ہے ،ویسے اللہ بہتر جانتا ہے کہ جب حمل مردہ ہوجائے گا تو بغیر آپریشن کے اسے نکالا نہیں جاسکتا،اور اس کے رہنے سے آئندہ حمل بھی نہیں ہوگا اور گراں بھی بن جائے گا ،اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر وہ سابقہ خاوند سے عدت گزار رہی ہوتو وہ بیوہ ہی رہے گا یعنی شادی نہ کرسکے گی۔ چوتھی حالت:ماں مردہ اور حمل زندہ ہوتو اگر اس کی زندگی کی امید نہ ہوتو آپریشن کا استعمال ناجائز ہوگا،اور اگر اس کی زندگی کی امید ہو اور اس کا کچھ حصہ بھی نکل آیا ہے تو والدہ کے پیٹ کو پھاڑ کر باقی کو بھی نکالا جائے گا،اور اگر اس سے کچھ بھی نہیں نکلا تو ہمارے اصحاب(حنابلہ) کہتے ہیں کہ حمل نکالنے کے لیے والدہ کے پیٹ کو پھاڑا نہیں جائے گا کیونکہ یہ مثلہ ہے لیکن درست بات یہ ہے کہ اگر پھاڑنے کے بغیر اسے نکالا نہ جاسکتا ہوتو والدہ کو پیٹ کو پھاڑا جائے گا اور یہی ہبیرہ کا قول ہے
Flag Counter