Maktaba Wahhabi

156 - 342
ہوئیں۔ جاتے ہوئے اپنے رومی غلام کو بھی ساتھ لے لیا۔ یہ خبیث غلام راستے میں ان کو بہکانا چاہتا تھا۔ خاندانی عورت تھیں، مسلمان بھی ہو چکی تھیں۔ اس خاتون نے نہایت سمجھ داری سے کام لیا۔ حیلے بہانے سے اسے ’’عک‘‘ کے ایک قبیلے تک لے آئیں۔ ان کے پاس آکر اس غلام کے خلاف مدد مانگی تو انھوں نے اسے باندھ دیا ۔کہنے لگیں:عکرمہ کے آنے تک انتظار کرنا۔ اس کا فیصلہ وہی کرے گا۔ ام حکیم رضی اللہ عنہا نے تہامہ کے ساحل پر عکرمہ کو ڈھونڈ لیا ۔ کشتی میں سوار ہو چکا تھا۔ ام حکیم رضی اللہ عنہا عکرمہ سے واپسی کے لیے اصرار کر رہی ہیں، مگر عکرمہ ہے کہ انکار کر رہا ہے، ڈر رہا ہے، اپنے انجام سے خوف زدہ ہے کہ کہیں مکہ مکرمہ میں اسے قتل نہ کر دیا جائے۔ ام حکیم رضی اللہ عنہا واقعی بڑی حکیم اور دانا عورت تھیں۔ اپنے خاوند کو نہایت محبت اور پیار سے سمجھا رہی ہیں۔ میرے چچازاد! میں اس شخصیت کے پاس سے آرہی ہوں جو سب سے زیادہ نیک، صلہ رحمی کرنے والے اور سب سے بہتر انسان ہیں۔ اپنے آپ کو تباہی میں کیوں ڈالتے ہو؟ اور پھر بڑی تفصیل سے ام حکیم رضی اللہ عنہا عکرمہ کو بتا رہی ہیں کہ وہ کس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے امان حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ عکرمہ تعجب سے پوچھ رہا ہے:کیا فی الواقع تم میرے لیے امان حاصل کر چکی ہو؟ ام حکیم رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کو یقین دلا رہی ہیں:میں نے بذاتِ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی ہے تو انہوں نے تمہارے لیے معافی کا اعلان فرمایا ہے اور تمہاری تمام سابقہ لغزشوں سے صرف نظر کر لیا ہے۔ تم میرے ساتھ مکہ مکرمہ چلو، تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ عکرمہ کو یقین آگیا:اس کی بیوی واقعی درست کہہ رہی تھی … وہ واپس مکہ مکرمہ آنے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ راستے میں ام حکیم رضی اللہ عنہا نے رومی غلام کی بدکرداری کا ذکر کیا کہ اس نے کس طرح اس کو ورغلانے کی
Flag Counter