Maktaba Wahhabi

157 - 342
کوشش کی، تو یہ غیور مخزومی سردار صبر نہ کر سکا۔ مکہ مکرمہ جانے اور اسلام قبول کرنے سے پہلے اس بستی میں پہنچا جہاں اس کا غلام اپنے انجام کا منتظر تھا۔ عکرمہ نے رومی غلام کو دیکھا تو آنکھوں میں خون اتر آیا، تلوار کے ایک ہی وار سے اس بدکردار کو واصلِ جہنم کر دیا۔ عکرمہ اور اس کی بیوی ام حکیم رضی اللہ عنہا دونوں قریش کی شاخ بنو مخزو م کے معزز افراد تھے۔ ان کے مکہ مکرمہ پہنچنے کی خبر پہلے سے پہنچ چکی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو دیکھیے کہ آپ اس سردار کا استقبال کس طرح کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سردار کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس طرح لپکتے ہیں کہ آپ کی چادر مبارک کندھوں سے گر جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قدر جلدی سے آگے بڑھے کہ چادر مبارک کندھوں سے گر گئی۔ ایک روایت کے مطابق اس قدر جلدی سے آگے بڑھے کہ چادر اوڑھنے کی بھی پروا نہ کی۔ انھیں فرما رہے ہیں:(مَرْحَبًا بِالرَّاکِبِ الْمُھَاجِرِ)’’خوش آمدید اے مہاجربن کر آنے والے سوار!‘‘ ام حکیم رضی اللہ عنہا بھی نقاب اوڑھے اس مجلس میں موجود ہیں۔ عکرمہ کو اس پذیرائی پر یقین نہیں آ رہا۔ میں اتنا بڑا مجرم‘ میں نے اسلام کی راہ میں کتنے روڑے اٹکائے، میں نے تو بے حساب مال کفر کی مدد کے لیے خرچ کیا اور میرا اس طرح استقبال! بے یقینی کے عالم میں اپنی بیوی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے:اس نے مجھے بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے امان دی ہے؟ ارشاد فرمایا:(صَدَقَتْ فَأَنْتَ آمِنٌ) ’’اس نے سچ کہا ، تمہیں امن و امان حاصل ہے۔‘‘ عکرمہ کی غلط فہمی دور ہو گئی۔ اب وہ پوچھ رہا ہے:یہ بتلائیے کہ آپ کی دعوت کیا ہے اور آپ کس طرف بلاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں: (أَدْعُوکَ إِلٰی أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّي رَسُولُ اللّٰہِ) ’’میں تمہیں معبودِ برحق کی الوہیت کی شہادت کی طرف اور اپنی رسالت کی گواہی دینے کی طرف دعوت دیتا ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عکرمہ کو ارکانِ اسلام بتا رہے ہیں۔ اسلام کے چیدہ چیدہ احکام اورآداب کا تذکرہ ہو رہا ہے۔
Flag Counter