Maktaba Wahhabi

194 - 335
اس سلسلے میں ایک بار پھر قاری عبدالسبحان صاحب مؤی کا بیان ملاحظہ ہو: ’’دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں طلبا و اساتذہ کی باقاعدہ ضیافت ہوتی تھی، میزبانی بول کر میزبانی ہوتی تھی اور میزبان خود متولی صاحب ہوتے تھے۔ دلی کے بہت سارے اغنیا و اثریاء گربۂ مسکین بن کر متولی صاحب کے پاس اس نیت کے ساتھ آتے کہ آج ہم مہمانانِ رسول کی میزبانی کا شرف حاصل کریں گے، ان کی دعوت کریں گے۔ شیخ صاحب سے ملتے، بڑی انکساری کے ساتھ اپنی بات ان کے سامنے رکھتے کہ آپ سے بہتر ہم کیا خدمت کر سکیں گے اور آپ جیسی توجہ ہم کہاں دے سکیں گے، مگر پھر بھی آپ سے گزارش ہے کہ آج طلبا و اساتذہ کو اجازت دیں کہ ہمارے غریب خانہ کی رونق بڑھائیں اور ماحضر تناول فرمائیں ، ایک جگہ رہتے رہتے اور کھاتے پیتے طبیعت اکتا جاتی ہوگی، اس لیے منہ کا مزہ بدلنے کے لیے نہ سہی، آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے۔ اے کاش! آپ یہ اجازت مرحمت فرماتے! متولی صاحب گزارش سننے کے بعد چند لمحے خاموش رہتے، پھر کہتے: ہاں آپ نے تبدیلی آب و ہوا کی بڑی اچھی بات سمجھائی، نشاط و انبساط کے لیے یہ بڑی لازمی چیز ہے۔ ’’آج مدرسے میں یہ اعلان کر دو کہ جنگل والی کوٹھی میں اساتذہ و طلبا کی ضیافت ہوگی۔ پھر اپنی کار سے اساتذہ و طلبا کو مدرسے سے وہاں پہنچاتے۔ کھانا، پانی، دعوت تو بہانہ ہوتا، وہاں پہنچ کر قسم قسم کے رنگ برنگ کے پروگرام اساتذہ و طلبا منعقد کرتے اور اول آنے والے طالب علم متولی صاحب سے نقد انعام پاتے۔ تجوید میں اول آنے والے کو انعام، حفظِ قرآن میں اول آنے والے کو انعام، حفظِ احادیث میں امتیاز رکھنے والے کو انعام، تقریر دل پذیر پر انعام، تحریردل نشیں پر انعام، مکالمے،
Flag Counter