Maktaba Wahhabi

23 - 335
کتاب ’’برصغیر میں اہلِ حدیث کی سرگزشت‘‘ میں اس سے استفادہ کیا ہے، لیکن کسی ایک ہی مدرسے کی مکمل تاریخ اور اس کے بانی اور اساتذہ و تلامذہ کی تفصیل پر مشتمل میرے خیال سے ہندوستان میں دو کتابیں شائع ہوئی ہیں ۔ ایک آج سے ایک سو چھے سال قبل ۱۹۰۸ء = ۱۳۲۶ھ میں ، جب ہندوستان کی تقسیم کا کوئی تصور نہ تھا، ’’الحیات بعد الممات‘‘ کے نام سے لکھی گئی۔ یہ کتاب حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے حالات و کوائف پر محیط ہے اور مولانا فضل حسین بہاری کی تصنیف ہے۔ حضرت میاں صاحب کے واقعاتِ حیات کے ضمن میں علما و صلحا کا ایک جمِ غفیر اس کتاب کے صفحات میں خیمہ زن دکھائی دیتا ہے۔ کہیں درس و تدریس کی محفلیں جمی ہوئی ہیں ، کہیں تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری ہے اور کہیں وعظ و نصیحت کا فریضہ انجام دیا جا رہا ہے۔ اپنے موضوع کی یہ اہم ترین کتاب ہے۔ ایک صدی سے زائد عمر کے اس ذخیرۂ معلومات میں ہمت کر کے کچھ اضافہ کر دیا جائے اور اس کے مندرجات پر نظرثانی کی جائے تو اس کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی۔ میری معلومات کے مطابق دوسری یہی پیشِ نظر کتاب ’’مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ‘‘ ہے، جو صرف ایک مدرسے سے متعلق تفصیلات کو نمایاں کرتی ہے۔ علاوہ ازیں نیپال کے شہر جھنڈا نگر کے ماہنامہ ’’السراج‘‘ (مطبوعہ ۲۰۰۰ء = ۱۴۲۱ھ) کا خطیب الاسلام نمبر بھی پُراز معلومات کارنامہ ہے۔ ۶۷۰ صفحات پر محیط یہ نمبر مولانا عبدالرؤف خاں رحمانی جھنڈا نگری کے احوال کے ساتھ ساتھ وہاں کے ’’جامعہ سراج العلوم السلفیہ‘‘ کی ابتداے اجرا سے لمحہ موجود تک کی پوری تاریخ کو اپنے دامنِ صفحات میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس جامعہ کی تاریخ بہت سے نشیب و فراز کا حیرت انگیز اور دلچسپ مجموعہ ہے۔ اس میں حزن و ملال کی تلخیوں سے بھی واسطہ پڑتا
Flag Counter